واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین کی بلوچستان بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی ہزاروں مزدوروں نے اداروں کی نجکاری کے خلاف پریس کلب کوئٹہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرے سے یونین کے صوبائی سیکریٹری عبدالحئی، چیف آرگنائزر سید محمد لہڑی، وائس چیئرمین عبدالباقی لہڑی،جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی، فنانس سیکریٹری ملک محمد آصف اور سیکریٹری نشر و اشاعت سید آغا محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی بی اے یونین نے متعدد جلسوں، جلوسوں، دہرنوں، مظاہروں اور تحریری خطوط کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں واپڈا اور اس کے گروپ آف کمپنیز کی نجکاری پالیسی کوترک کرے، کمپنیوں کو تحلیل کرکے واپڈا ایکٹ1958کے تحت قومی وحدت کی علامت واپڈا کو بحال کرکے ملک میں بجلی کے نظام کو بہتر بنایا جائے اورپہلے کی طرح پروفیشنل اور ایماندار منیجمنٹ کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جائے،واپڈا کے تحت بجلی کے ترسیلی نظام کو چلاکر عوام تک بجلی پہنچانے، بجلی چوری کو روکنے اور محکمہ کے بقایاجات کی ریکوری کرنے کاانتظام کرکے ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے اور بجلی کے نرخ میں کمی لاکر صنعتی، تجارتی، زرعی اورگھریلو صارفین کے مسائل کو حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قومی ادارے خصوصاً حساسیت کے حامل واپڈا اور اس کے گروپ آف کمپنیز، ریلوے وغیرہ وغیرہ ملک کے ستون ہیں اور ملکوں کی ترقی قومی اداروں کے مرہون منت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سی بی اے یونین تسلسل کے ساتھ حکومت کو مطالبات پیش کرتی آرہی ہے کہ بجلی کی کمپنیوں میں سیاسی بورڈ آف ڈائریکٹرز اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور تبادلوں کا سلسلہ ختم کرکے واپڈا کے قابل انجینئرز اور محنتی کارکنوں کے ذریعے ادارے کو چلانے کا بندوبست کیا جائے لیکن حکومت یکطرفہ کارروائی کے ذریعے آئیسکو،لیسکو اور747 میگا واٹ گڈو تھرمل پاور ہاؤس سمیت دیگر منافع بخش کمپنیوں کوآئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ایماء پر کوڑیوں کے مول بیچنا چاہتی ہے دوسری طرف سیاستدان اپنے کاروباری کمیشن ایجنٹس کو بجلی کی کمپنیاں فروخت کرکے ملک میں بجلی کو مزید مہنگا اور ناپیدبنا رہے ہیں جس کی واضح مثال کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی ہے کہ اگر اس کمپنی کو واپڈاساڑھے چھ سو میگا واٹ بجلی فراہم نہ کرے تو یہ کمپنی ایک روزبھی نہیں چل سکتی۔
مقررین نے وزارت پاور سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز بالخصوص سی بی اے یونین کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ نجکاری کا حکومتی فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کے نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کا نظام قائم کرنے کے وعدے کے خلاف ہے اوراگر حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو ملک بھر میں دمادم مست قلندر ہوگا۔
مقررین نے کہا کہ واپڈا کے ایک لاکھ ساٹھ ہزارسے زائد محنت کش آئی ایم ایف کی ایماء پربجلی کی منافع بخش کمپنیوں اور قومی اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے کیونکہ منافع بخش لیسکو، آئیسکو، گڈو تھرمل پاور ہاؤس اور 45 میگا واٹ نندی پور پاور پلانٹ کی نجکاری کسی بھی طرح سے قومی مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری ناکام ہو چکی ہے،کراچی الیکٹرک کی نجکاری سے کراچی کے دو کروڑ سے زائد شہری لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزر رہے ہیں اور کراچی الیکٹرک نے حکومتی اداروں، واپڈا، سوئی گیس کے اربوں روپے کے واجبات ادا نہیں کئے ہیں حکومت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری سے سبق سیکھے۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں نے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دباؤ پر نجکاری کا فیصلہ کیا تھا تاہم سی بی اے یونین کی ملک گیرتحریکوں کے باعث نجکاری کا عمل ترک کیا گیا تھا۔
انہوں نے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کے وسیع ترمفاد میں قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ ترک کرکے تمام اداروں میں اصلاحاتی نظام لاکراور گڈ گورننس کے ذریعے قومی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔