دووکمروں پرمشتمل سکول میں ایک ٹیچر60 بچیوں سمیت ایک سو تیس سے زائد بچوں کو پڑھا رہا ہے، چالیس فیصد بچیاں پانچویں تک پڑھنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے تو بلندوبانگ طور پر کئے جارہے ہیں مگرحقائق ان دعوؤں سے برعکس ہے، سونے اور چاندی کی سرزمین ہونے کے باعث سیندک اور ریکوڈک عالمی شہرت رکھتے ہیں وہی جغرافیائی حوالے سے نوکنڈی کی سرحدیں دو ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
زندگی کے دیگر بنیادی سہولیات سے محروم اور بیروزگاری جیسے مسائل سے دوچار تحصیل نوکنڈی جدید دور کے تقاضوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تعلیمی مسائل سے بھری ہوئی ہے۔
نوکنڈی کے پرائمری سکول کلی مینگل آباد میں بغیر چار دیواری دو کمروں پرمشتمل سکول میں ایک ٹیچر 60 بچیوں سمیت ایک سو تیس سے زائد بچوں کو بغیر وسائل کے انتہائی مشکلات میں زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
لڑکیوں کیلئے اسکول نہ ہونے کی وجہ سے کلی کے 40 فیصد بچیاں یہاں پانچویں جماعت تک پڑھنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہتے ہیں۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ 130 بچے اور بچیوں کو دو کمروں میں بٹھانے سے پڑھانے میں مشکلات کا اندازہ تو ہر کسی کو ہوسکتا ہے گھروں سے دور یہ سکول چاردیواری نہ ہونے کی وجہ سے کتوں کے حملے اور گاڑیوں کی تیز رفتاری کے باعث سکول کے بچے اوران کے والدین ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سکول میں نہ بجلی اور نہ ہی پانی کا انتظام ہے، حال ہی میں چاغی میں کروڑوں روپے کے اسکیمات ان سکولوں کودی گئی ہیں جہاں مزید کام کرنے کی گنجائش ہی نہیں اس لیے عوامی نمائندوں اور محکمہ تعلیم کے افسران کو علاقائی تعصب سے بالاتر ہوکر کلی مینگل آباد بوائزسکول میں اضافی کمرے چار دیواری، بجلی، پانی و دیگر سہولیات کے ساتھ اضافی پوسٹ بھی دینے چاہیے۔
مکینوں کا مطالبہ ہے کہ یہاں بچیوں کے لئے الگ گرلز سکول کا قیام بھی جلدازجلد لانا چاہیے تاکہ یہاں کی بچیاں زیور تعلیم سے محروم نہ رہے۔