نوآبادیاتی نظام تعلیم اور بےبس طلبا – ہونک بلوچ

216

نوآبادیاتی نظام تعلیم اور بےبس طلبا

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بہت افسوس کے ساتھ پڑھنے والوں کے لئے کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ بلوچستان کے کس مسئلے کو زیر بحث لاکر ذکر کروں کیونکہ بلوچستان میں مسئلو ں کا انبار موجود ہے۔ اگر کسی مسئلے کو زیربحث لانے کی کوشش کریں تو ذہن میں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ مسئلے کی بنیاد کیا ہے؟ جب آپ کسی مریض کوڈاکٹر کے ہاں پیش کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب سب سے پہلے یہ سوال پوچھتاہے کہ یہ مسئلہ کب سے ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ایک کرکے تما م پہلووں پر سوالات کر تا ہے تاکہ بیماری کی وجود سے لے کر آج تک تمام صورتحال ڈاکٹر کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے، تو ڈاکٹر اُس مریض کو اس کے بعد چیک اپ کےلئےکچھ لکھ کر لیبارٹر ی بھیج دیتا ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر دوا نہیں دیتا، جب تک وہ رپورٹ پیش نہیں ہوں۔ سب کچھ جاننے کے بعد وہ مریض کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو مریض صحت یاب ہو جاتا ہے جب مریض ڈاکٹر کے دی ہوئی ہدایت پر عمل کریں۔

اب اسی طرح اپنے روز مرہ زندگی کے متعلق سوچیں اور غور فکر کے بعد دیکھیں اور خود سے چند سوال کریں اور انکے بارے میں سوچیں کہ سماجی تر قی کےلئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں، اور ایک انسان کیا کچھ کر سکتاہے تو اسی طرح عمل درآمد کریں۔

حال ہی میں کچھ تصویریں اور کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے میرے سامنے گذرے تو ان سے میرے ذہن میں بہت سے سوال پیدا ہوئے کہ ان میں طاقت کا گھمنڈ اور بے بسی دونوں کو دیکھا، ایک محکوم پشتون پر دکی کے علاقے میں ایک سرکاری آفسر آکر احتجاج میں بیٹھے ہو ئے شخص کو گلے سے پکڑ کر مارنے کے بعد فائرنگ کا حکم دیتا ہے تو ذہن ایک دم جلیاں والا باغ، تمپ میں بی ایس او کے جلسہ عام اور تربت میں بی این ایف کا جلسے کی یاد آتا ہے کہ اسی طرح حکم کے بعد سب کچھ ہوا، اسی طرح یہاں ریاست نے طاقت کو استعمال کرکے لوگوں کو خوف زدہ کیا۔ جلیاں والا باغ میں بہت سے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، اسی طرح تمپ میں شہید مختیار شہید ہوئے اورشہید الطاف بلیدی تربت میں بی این ایف کے ایک احتجاجی جلسے میں شہید ہو ئے، کیو نکہ طاقت کا گھمنڈ ان سب جگہوں میں استعمال ہوا لیکن ایک بات ذہن میں رہے غلام اور محکوم قوم طاقتور کےلئے کیڑے اور مکوڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

بلوچستان کے بسنے والے اس بات سے بہت خوب آشنا ہیں ، کیونکہ یہاں تو روز مرہ کی زندگی میں کہیں پر فوجی آپریشن ہے، کہیں ریاستی اداروں کے ہاتھوں ٹارگٹ گلنگ ہو رہاہے، کہیں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو رہی ہیں اور اجتماعی قبریں اور کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ یہ سب ہو نے کے بعد اور سہنے کے باوجود انسان میں ایک صلاحیت موجود رہتا ہے، وہ رہنے کےلیئے یہ نہیں دیکھتا ہے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے بلکہ اپنی بساط اور زندہ رہنے کےلئے ایک کردار ادا کرتا ہے۔ یہی صور ت حال دیکھنے کے بعد دنیا کی جدیدیت کو دیکھ کر تو سوچنے کی صلاحیت رکھنے والے نو جوان تعلیم کی طرف رخ کرتے ہیں تاکہ وہ اس دنیا کا مقابلہ کرسکیں، لیکن ان کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے، وہ ہمارے سامنے عیاں ہیں۔

اگر قصے کو پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد سے شروع کریں تو بہتر ہے، جہاں بلوچ نو جوان تعلیم کی حصول کے لئے جاتے ہیں، اگر کسی نو جوان کو زیادہ احساس ہوا توتعلیم کی تشنگی دور کرنے کےلئے دنیا کو پڑھتے ہیں، کچھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں، پہلے وہ ریاستی اداروں کے ہا تھوں گرفتار ہو کر لا پتہ ہو جاتا ہے، جس کا انتظار صرف مسخ لاش کا انتظار ہو تا ہے، کوئی خاموش ہو کر اپنی تعلیم کی طرف تو جہ دیتا ہے، ایک اُسے فائنل کیا جاتا جو قطب رند کی طرح خودکشی کرتا ہے یا باقیوں کو ریاست کی پالے ہوئے لوگ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ہم ۲۰۱۶ کے بعد دیکھیں کتنے نوجوان اُن کے ہاتھوں تشدد سے تعلیم کو خیر باد کر چکے ہیں کیونکہ انکو ذہنی کوفت میں مبتلا کیا جاتا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ہر کوئی جانتا ہے، خاصکر اُس نو جوان کو جاننا لازمی ہے جو اس فکر میں ہے کہ مستقبل میں جاکر بیورکریسی میں کو ئی کردار ادا کرنا ہے۔

اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، اُس تصویر کا ذکر کرتے ہیں جو بے بسی کی صورت گورنر ھاؤس کے سامنے احتجاج کر رہے تھے کہ ہمیں ہاسٹل سے بے دخل نہیں کریں۔ ہمیں اپنا ھاؤس جاب کرنے کی اجازت دیں تاکہ ہم اتنے محنت کے بعد یہاں پہنچ چکے ہیں توکچھ کریں لیکن کسی کوکیا پرواہ بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی سا سلوک کیا جارہاہے، وہ رہنما جو پارلیمٹ میں موجود ہیں، وہ شیخ مجیب الرحمن کا کردار ادا کرتے ، کیونکہ آج پارلیمٹ میں بیٹھے بی این پی مینگل اور عوامی ،باپ ،اے این پی وغیرہ وغیر ہ سب بے بس ہیں جن کے پاس صلاحیت کجا شعور ہی موجود نہیں ہے ، لیکن ہمارے طلبا نے ہر وقت اہم رول ادا کیا ہے، وہ کبھی تشدد سے خوف زدہ نہیں ہوئے لیکن اس وقت وہ بھی بے بس دیکھائی دیتے ہیں۔ کیا ہم بنگلہ دیش کے نو جوانوں سے کمزور ہیں جنہوں نے اپنی زبان کی خاطر ایک عظیم جد وجہد کا افتتاح کیا؟ جو قربانی دینے کے بعد اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے۔ بلوچوں کی زبان کو ریاست تو کبھی آگے جانے نہیں دیتاہےلیکن ہما رے ادیب بھی خود کو بے بس کر چکے ہیں ، کہتے ہیں ادیب کبھی بے بس نہیں ہو تا لیکن یہاں بے بس نظر آتے ہیں ۔ ہم جانتےہیں کہ قابض ریاست مقبوضہ ملک کے بسنے والو ں کی شاخت کو ختم کرنے کےلیے تمام حدوں کو پار کرتی ہے ، لیکن ہمارا احساس مرچکاہے، ہمارا احساس اس لئے مرا ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے آشنا نہیں ہیں۔ جب کسی قوم کے فرزند کو ختم کر نا چاہتے ہو، تو اُسے اُسکی ثفافت ،تہذیب ،زبان اور تاریخ سے بیگانہ کریں۔ پاکستان آج کامیاب ہو چکا ہے ، اس کام میں ہمارے نوجوان طالب علموں کو اس لئے بی ایس او جیسے تنظیم سے دور رہنے کے لئے کہتا ہے کہ وہاں وہ علم دیا جاتا ہے جو اُس کی قومی تاریخ ہو تا ہے، لیکن وہ اپنی تاریخ و تہذیب سے بیگانہ رہے ہیں ۔ یہ نہیں کہتا کہ ان کو ہاسٹل کہ سہولت مہیا کیاجائے، کیونکہ ریاست اذیت دے کر کچھ نہ کچھ کرلیتا ہے، یہ عمل صر ف ان کو تنگ کرنے کی کو شش ہے۔ مجھے افسوس ہے ان سے جو بی ایس او سے دور ہو کر اپنی شناخت کو بھول چکے ہیں۔ نو جوانوں نے اگر غور و فکر نہیں کیا ، اپنے حقوق کی تحفظ نہیں کی ، اپنی قومی تاریخ کو پڑھنے کی جسارت نہیں کی، تو خود کو ایک طاقت سمجھنے سے قاصر رہے تو تاریخ انکو کھبی معاف نہیں کرے گا۔

بلوچستان کو شہید فدا احمد کا فکر و فلسفہ، شہید حمید کی قربانی، اسیر لیڈر چیئرمین زاھد جیسے بے باک لیڈر اور تنقیدی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ، ورنہ بلوچوں کی شناخت کو ختم ہو نے سے کو ئی نہیں روک سکتا ہے ، خود کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کیا جائے کیو نکہ وقت بہت نازک ہے ، اسلیئے ہمیں سمجھنا ہوگا کیونکہ اسی میں ہمارے قوم کا مستقبل ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔