بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حالیہ شورش کی وجہ سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں سے دوچار ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان کے چپے چپے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی آرہی ہیں، سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عام لوگوں کی زندگیاں ابتر بنا دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی بھی ایک دن نہیں گزرتا جہاں کسی نہ کسی کے ساتھ ظلم روا نہ رکھا گیا ہو، آئے دن کوئی نہ کوئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں جبر کا شکار ہے اس سے وہ لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں جو انسانی حقوق اور ملکی قانون کی باتیں کرتے ہیں۔ نواز عطاء بلوچ جو ایک انسانی حقوق کے کارکن تھے اور بلوچستان میں جاری شورش سے متاثر عام لوگوں کی آواز بنی تھی لیکن عام لوگوں کی آواز کو ہی اٹھایا گیا بلوچستان کو ایک قید خانہ کی شکل دیا گیا ہے جہاں بولنے کا اختیار صرف پہرے داروں کو دیا گیا ہے جبکہ جو کوئی بھی اپنے حقوق کی مانگ کرتا ہے اُس کو اٹھایا جاتا ہے اُس کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جاتا ہے یاکہ کسی زندان میں ہمیشہ کیلئے پھینک دیا جاتا ہے اظہار رائے آزادی پاکستان میں برائے نام رہ گئی جبکہ حقیقت میں اظہار رائے کی آزادی کا کوئی وجود پاکستان میں نہیں ہے خاص کر بلوچستان میں تو اس کا تصویر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہاں آواز اٹھانے والے ہمیشہ کیلئے اٹھا دیے جاتے ہیں انہی میں ایک نواز عطا بلوچ ہے جنہیں اب دو سال کا لمبا عرصہ مکمل ہو چکا ہے جو کسی قید خانے میں قید ہے جس تک رسائی حاصل کرنے کے بھی سارے ذرائع بند کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز عطا بلوچ کو 28 اکتوبر 2017 کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں 8 بچوں کے ساتھ جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا کچھ وقت کے بعد باقی دیگر بچے چھوڑ دیے گئے جنہیں سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن نواز عطا بلوچ آج بھی غائب ہیں جن کی جان سلامتی کا بھی کوئی حال نہیں ہے جو خاندان اور تنظیم کیلئے لمہ فکریہ ہے دو سال کے طویل عرصہ تک کسی انسانی حقوق کے کارکن کو غائب کرتے ہوئے قید خانے کی چار دیواروں میں بند کرنا انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر تمانچہ ہے یہ ایک انسانی حقوق کے کارکن کی گمشدگی نہیں بلکہ یہ انسانی حقوق کی گمشدگی کے مترادف ہے۔ پاکستان میں آئین نامی چیز برائے نام رہ گئی ہے کیونکہ آئین کی پاسداری کے دعوی دار ادارے ہی آئین کی خلاف ورزیوں میں سب سے پیش پیش ہیں جن اداروں کو آئین کے پابند رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے تھی وہی ادارے پاکستان کی قانون کو پاؤں تلے روندتے ہوئے لوگوں کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس دن کسی کو لاپتہ نہیں کیا جاتا جب ملکی ادارے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو ملک کیسے چلے گا نواز عطا کو مبینہ گمشدگی کا شکار بنانے کا مقصد بلوچستان سے ان کی جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے تاکہ بلوچستان میں ہونے والے جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جائے اسی لیے سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کو گمشدہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم آج کی پریس کانفرنس کی توسط سے آپ سب کو متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ نواز عطا اور دیگر لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی سنگین ہے کسی ایک شخص کی گمشدگی بس اُس شخص کی گمشدگی نہیں ہے بلکہ اُس کے ساتھ اُس کی پورے خاندان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے جس سے زندان میں تو ایک ہوتا ہے لیکن زندان کی اذیت سب برداشت کرتے ہیں اور بلوچستان میں ہزاروں خاندان اس اذیت سے دوچار ہیں جنہیں آپ کے قلم کی طاقت کی ضرورت ہے آپ میڈیا حضرات سے اپیل ہے کہ گمشدہ افراد کے اس معاملے پر لب کشائی کریں آواز اٹھائیں تاکہ کسی بھی انسان کو بے گناہ لاپتہ نہ کیا جائے اگر کوئی گنہگار بھی ہے تو پاکستان کے قانون کس لیے ہیں اگر کسی نے کوئی خلافت قانون کام کیا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا دیا جائے، منظر عام پر لایا جائے ان کے خاندان کو ان تک رسائی کا اختیار دیا جائے لیکن اس طرح کسی کو گمشدہ کرنا کسی بھی قانون کی سخت خلاف ورزی ہے۔ ہم اس سے ایک بار پھر نواز عطا بلوچ کی بازیابی کیلیے سب انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور ایک انسانی حقوق کے کارکن کو اذیت سے نکالنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کریں۔