نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے سے معیشت میں بہتری آئیگی اور نہ ہی سیاسی ماحول قائم رہ سکے گا اس وقت ملک شدید سیاسی و معاشی بحران سے دوچار ہے مہنگائی آسماں تک پہنچ گیا عام آدمی کیلئے سبزی تک خریدنا مشکل ہوگیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت انتہائی غیرسنجیدہ طریقے سے حکومت کی جارہی ہے صرف انتقام کا نعرہ لیکر وہ آگے جارہے ہیں.
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے خلاف جمعیت علما اسلام کے آزادی مارچ میں ہماری مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ بھرپور شرکت کرنا ہے میرحاصل بزنجو و دیگر مرکزی عہدیداروں سب نے مل کر فیصلہ کیا ہے نیشنل پارٹی جمعیت علما اسلام کے آزادی مارچ میں شرکت کرینگے اور کارکن زیادہ سے زیادہ اسلام آباد پہنچ کر آزادی مارچ میں شرکت کریں ہم مجموعی طور پر اپوزیشن کے ساتھ ہیں جتنے دن دھرنا ہوگا ہم ساتھ ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی واقعہ کی نیشنل پارٹی مذمت کرتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں تعلیم کی طرف ایک رجحان بن رہا ہے اس کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے اتنے دن گزر گئے صوبائی حکومت نے ابھی تک کچھ نہیں کیا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ واقع پر بنائی گئی کمیٹی ابھی تک بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں سجھتے کہ موجود صوبائی حکومت عوام سے مخلص نہیں ہے جب تک آپ اپنے عوام سے مخلص نہیں ہوتے تب تک آپ وہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہو، ہم نے ڈھائی سال کے مختصر عرصے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کو بہتر بنایا ہم نے تعلیم کی بہتری کیلئے اقدامات کیئے، اصلاحات لائے، ہسپتال میں ادویات کی کمی تھی ہم نے کافی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے اب پچھلے سال کے 1 ارب 13 کروڑ سے زائد روپے لیپس ہوگئے ہیں ایک روپیہ کی ادویات نہیں خریدی گئی موجودہ حکومت باتوں کی حد تک بڑی خوبصورت ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت میرٹ کی صرف باتیں کررہے ہیں تربت میں 117 استاتذہ کو جن میں اکثریت خواتین کی ہے ان کو نکال دیا گیا حالانکہ کسی بھی سرکاری ٹیچر کو نکالنا سمجھ سے بالاتر ہے اگر ان کی جانب سے کوئی غفلت ہوئی ہے تو ان کی تنخواوں میں کٹوتی کرو، سروس میں کٹوتی کرو نکالنا مناسب نہیں باقی رہی بات میرٹ کی تو بلوچستان میں این ٹی ایس کا حال دیکھا جائے، حالیہ لیویز کی بھرتیوں کو دیکھا جائے، ہم نہیں سمجھتے کہ بلوچستان میں میرٹ نام کا کوئی چیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام اختیارات سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے، آئین پاکستان میں ساحل سمندر 25نائیٹیکل تک صوبائی دائرہ کار میں آتا ہے اب وفاق صوبائی اختیارات سے تجاوز کررہی ہے جو ہمیں آئین پاکستان نے دیئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئین کی خلاف وزری ہے بلوچستان فشرمین سوسائٹی سمیت کسی بھی سوسائٹی یا ادارے میں عوام کی تجاویز شامل نہ ہوں وہ کام ادھورہ رہ جاتا ہے۔ اب فشرمین سوسائٹی میں ایسے لوگوں کو شامل کیا ہے جن کا ماہیگیری سے کوئی واسطہ نہیں جب ماہیگیر ہی نہیں سوسائٹی میں تو ماہیگیروں کے مسائل کہاں پیش ہونگے یہ عمل بھی صوبائی حکومت کا ماہیگیروں سے مخلص نہ ہونے کا واضع ثبوت ہے۔