مزاحمت زندگی مفاہمت موت
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم ہوتی ہیں وہ اقوام جو مزاحمتی جدوجہد کا حصہ بنتی ہیں اور اجتماعی منزل کے لیے انفرادی و خاندانی مفادات کو قربان کرتے ہیں۔ آج جواہر لعل نہرو صاحب کی کتاب “تاریخ عالم پر اک نظر” سے اقتباس یاد آرہا ہے جس میں وہ اپنی بیٹی کو نصحیت کرتے ہیں کہ ایک انقلابی وہی ہے جو انفرادی مفاد کو خاندان اور خاندان کے مفاد کو قبیلہ اور قبیلے کے مفاد کو قوم پر قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔”
کیا یہ مزاحمتی جذبہ نہیں؟ یہی جذبہ نسل انسانی کو بہتر سے بہترین تک پہنچا رہا ہے۔ خواہ یورپ میں ریناساں ہو یا انقلاب فرانس یا پھر انقلاب روس مزاحمت کے بغیر انسانی تاریخ ان مراحل کو کیسے طے کر پاتا؟
کیا یہ ممکن ہے کہ مفاہمت کرکے انسان اپنے انفرادی ذات سے بالا ہوسکتا؟
کیا مفاہمت انقلاب فرانس یا انقلاب روس کا پیش خیمہ بن سکتا؟
کیا مفاہمت کی بنیاد پر فینن نوآبادیاتی دنیا کو دو الگ دنیاوں میں تقسیم کر پاتا؟
بابا مری نے جب کہا کہ وکیل تو بہت سے ان اداروں سے نکلتے ہیں لیکن لینن؟ لینن باقی وکیلوں سے اس لیے ممتاز ٹہرا کیونکہ لینن کا کردار مزاحمتی تھا۔ خود باقی سردار لارڈ کے بھگی کو کھینچتے ہیں لیکن خیربخش اول انکار کرتا ہے اور یہ مزاحمت پھر مزید نکھار کے کیساتھ بابا مری کیساتھ ملتا ہے۔ مزاحمت ہی اصل زندگی ہے اور محکوم قوموں کے لیئے مزاحمت کے علاوہ اور کیا ہے؟
مفاہمت کرنے والوں نے غلامی کو طویل کرنے کے علاوہ کونساایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ ہم ان کا نام لے کر سینہ چوڑا کرسکیں۔ جس نظام کی بنیاد ہی جبر پر ہو وہاں مفاہمت کیا معنی رکھتا ہے البتہ مزاحمت بہترین جواب ہے اور یہی مزاحمت ہے جس نے محکوموں کو نجات دلائی ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ انقلاب فرانس کے نقاد لوگوں کو لوئی شانزدہم کے ماتحت رہنے کی مفاہمتی تدریس کرتے؟
یا لینن لوگوں کو زار روس کی باجگزاری پر رازی کرتے؟
مفاہمت نے کہیں بھی کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں کیا بلکہ یہ سہرا مزاحمت کے سر جاتا ہے۔
مزاحمت محکوم قوم کی بقاء کے لیے آکسیجن ہے۔ یہ قومی تشکیل نو کا حقیقی راستہ ہے۔ مزاحمت ہی نوآبادیاتی نظام کی حقیقی شکست کا واحد ذریعہ ہے۔ جو قومیں مزاحمت نہیں کرتی انہیں فناء کا نوالہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، وہ اپنے ہی دھرتی پر اجنبی بن جاتے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک آزادی مزاحمت کی خوبصورت ترین مثال ہے، ہمارے لیئے کیونکہ یہ ہمارے دھرتی کے دکھوں کا مداوا ہے۔ اس تحریک کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں کہ جہاں ریاستی نمائندوں کی کمی نہیں جہاں غلامی کی تاریکی ہر سو پھیلی ہوئی ہے لیکن وہی تحریک روشنی ہے جو ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس تحریک میں بہت سی قربانیاں ہیں اور ہر قربانی اس بات کی گواہ ہے کہ مزاحمت جاری رہیگی اور بلوچ جہدکار خون کے آخری قطرے تک نوآبادکار کو یہ یقین دلاتے رہینگے کہ بلوچ دھرتی لاوارث نہیں۔
بلوچ جہدکار کے مزاحمت نے بلوچ سماج کو گہرا شعور دیا، آج اسی شعور کو ہم مختلف صورتوں میں ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ آج بلوچ بہنیں بھی صف اول میں نوآبادیاتی نظام کے پالیسیوں کے خلاف آچکی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال کو بہتر رخ کس طرح فراہم کیا جاتا ہے اور مزاحمت کو مزید کیسے تیز کیا جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔