پڑو ادبی کچاری کے چیئرمین اور ممبران نے متنازعہ نصاب میں تفرقہ پیدا کرنے والے مواد کے خلاف مذمتی بیان میں کہا ہے کہ یہاں غیر نصابی لیٹریچر کے فروغ سے لوگوں میں اتنا شعور آچکا ہے کہ وہ نصاب میں درج تاریخی حقائق کو مسخ کرنے والے مواد کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرکے نفرت انگیز مواد چھاپنے والوں کے خلاف مدلل آواز بلند کر کے ایسے عمل میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کر کے ان کو بے نقاب کر دیں جس کا ایک جلک سوشل میڈیا پے دیکھنے کو مل رہا ہے۔
انہوں نے کہاں ہے کہ ہر کس و ناکس کو یہ علم ہے کہ نصاب میں ہمیں کیا پڑھایا جارہا ہے اور ان کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے جس کے خلاف بلوچستان کے علاوہ سندھ، سرحد اور پنجاب میں بھی مظاہرے کیے جاچکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نصاب میں درج کوئی پہلا واقعہ نہیں جس سے بلوچ قوم و بلوچستان کو غلط پیش کیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وفاقی نصاب میں بلوچ اور بلوچستان میں رہنے والے دیگر اقوام کی تضحیک کی گئی تھی اور ہم ہی نے سب سے پہلے “پڑو ہفت روزہ” کے پلیٹ فارم سے ان کے خلاف آواز بلند کر کے نصاب کو بدل ڈالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پڑو ادبی کچاری کے منشور میں بھی درج ہے کہ ہم ایسے نصاب اور اس جیسے دیگر ہر لیٹریچر کی مخالفت کرکے ہر فورم پر کردار ادا کریں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم دیگر ادبی تنظیموں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وفاقی نصاب کے خلاف احتجاج کے وقت جس طرح وقت چھپ چھاپ بیٹھے رہنے والے عمل کو دھرانے کی بجائے اپنے اپنے اداروں سے اس کے خلاف سخت احتجاجی مہم شروع کریں اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں، صرف مشاعروں سے اقوام کی تسکین نہیں ہوتی ہے۔