ماں کہتی ہے وہ وطن کا ہی وقار ہے – حفصہ بلوچ

690

ماں کہتی ہےوہ وطن کا ہی وقار ہے۔

تحریر: حفصہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دیوار پر لگے کلینڈر میں ۲۹ تاریخ کا دن نظروں سے گذرا تو یاد آیا کہ اسی دن روزِ معمول کی طرح دشمن ریاست نے ایک اور بلوچ ماں کے کوکھ کو اُجاڑ دیا۔ آج سے چھ سال پہلے اسی دن بھائی کو شہید کیاگیا تھا۔

میں امی کے پاس گئی ان سے پوچھنے لگی کہ کیا کبھی آپکوبھائی یاد آتے ہیں، تو وہ نرم لہجے میں مسکرا کر کہنے لگی نہیں! اور بلوچستان کی مکمل آزادی تک تو کبھی بھی یاد نہیں آئے گا۔ میں نے سوال کیاایسا کیوں؟ کہنے لگی وہ تو اب بھی زندہ ہے کبھی ریحان کی شکل میں دشمن کو تباہ کرنے کے منصوبہ بندی میں لگا ہے، تو کبھی بابر کی طرح سر پر کفن باندھ کر انتظار میں ہے کہ کب دشمن کو سبق سکھائے، توکبھی جنگ پر موجود مہران کی روپ میں نہایت ہی بے خوفی اور ایک فولادی دیوار بن کر دشمن کی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دے رہا ہے تو کبھی چاکراور خالد کی صورت میں دشمن کو خاک میں ملاتے ہوئے شہادت نوش کر رہا ہے، تو کبھی مجید کی روح لے کر اس دنیا میں پھر سے اپنا پہلا قدم رکھ رہا ہے۔

امی کی یہ سب باتیں میری سر سے گذرنے لگی، میں ایک لمحے کے لیے حیران ہوئی امی سے پوچھنے لگی یہ سب اتنی گہری باتیں آپ کیسے اپنے تصور میں لا رہی ہیں؟ تو پھر سے مسکرا کر کہنے لگی تمہں کیا لگا کے بالاچ، خلیل، اور حمید کو شہید کر کے دشمن ریاست ہمیں شکست دینے میں کامیاب ہوا؟ یا کہ وہ سفر، رمضان، جیئند ، میران، منان ،قمبر، حئی،شاہ میر،دودا،بہرام کی مائیں اپنے جگر گوشوں کو قربان کر کے مطمین ہوگئی ہیں؟ نہیں بلوچ مائیں اس وقت تک اپنے لختِ جگروں کی قربانیوں کا اصل جشن نہیں منائیں گی، جب تک ہماری زمین دشمن ریاست کی ناپاک عزائم، جابر فوج سے صاف ہو کر آزاد نہیں ہوتی، تب تک بلوچ مائیں ایک کے بعد دوسرا قیوم ،حمل،نوروز،ساجد، ساچان، مہراب ، امیر و غلام محمد کو وطن پر نثار ہونے کے لیے تیار کرتی رہیں گی۔ اور پھرتمام بلوچ شہداء کی مائیں آزادی کی تحریک اور شہدا کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر یُسف نیبی (ایک کرد سپائی جو اپنی زمین کی دفاع کرتے ہوئے شہید کیاگیا) کی ماں کی طرح اپنے شہیدوں کے عکس کو اینے سینےسے لگاکر آزادی کا جشن منائیں گی۔

امی کہتی ہے میرا وقار میرے وطن کا ہی وقار ہے، میرے لئے بلوچ سرزمین پر فدا ہونے والے تمام شہداء کا ایک ہی مقام ہے، اور جو اپنی خود مختاری اور زمین کی دفاع کی جنگ میں ڈٹے کھڑے ہیں، ان سب میں مجھے میرے وجود کا حصہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ ان سب میں ایک ہی بلوچ نسل کا خون ہے، ان کی سوچ، ان کے ارادے، ان کا منزل ِمقصود صرف اورصرف وطن کی ننگ و ناموس کی حفاظت، اپنی مادرِ وطن کی پاک مقدس سرزمین کی دفاع کرناہے۔ اس لیے مجھے کبھی لگتا ہی نہیں میرا بیٹا میرے پاس نہیں وہ تو اب بھی زندہ ہے، ان ہزاروں نوجوان جہدکاروں میں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی زمین کی حفاظت میں ٹھنڈی شام اور گرم لُو میں دشمن کے سامنے مظبوط چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ وہ اب بھی ان تمام نوجوانوں کے بیچ میں موجود ہے جو بڑی بہادری سے دشمن ریاست کے مظالم کا بڑی پامردگی سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔

وہ اب بھی ان ھزاروں نوجوانوں میں زندہ ہے جو دشمن کی سیاہ کال کوٹھڑی میں قید ہونے کے باوجود خود کو غلام ماننے سے انکار کرتےہیں، اپنی بقاء و شناخت کی حفاظت میں دشمن کے ظلم و ستم سہہ کر بھی بافخر ہو کر خود کو بلوچ سرزمین کا فرزند کہنے میں زرہ بھر بھی نہیں کتراتے۔ دشمن کے گالیوں، لات اور کوڑوں کی بارش برسنے پر بھی مسکرا کر آزاد بلوچستان کے نعرے بلند کرکے دشمن کوذہنی شکست دینے میں مگن ہیں۔

جہاں تک دشمن کو شکست دینے کی بات ہے تو میں سمجھتی ہوں دشمن اب پوری طرح سے شکست کھا چکی ہے، دشمن ذہنی طور پر مفلوج ہو چکا ہے، بلوچوں کو آپس میں الجھانے اور بلوچ کی تحریک کو ناکام بنانے کی سازش میں اپنے تمام تر حربے استعمال کر کے بھی خود نیست نابود ہو چکا ہے۔ اٹھاؤ، مارو پھینکو کی پالیسیوں سے لے کر بلوچ طلبہ و طلبات کے ہاسٹل اور واش رومز میں کیمرے لگا کر دشمن ریاست نے اپنی بُری طرح سے شکست کو بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے سامنےتسلیم کردیا ہے۔

حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والا واقع نہایت ہی گھٹیا حربہ بلکہ درحقیت ریاست کی پوری طرح سے ناکامی کی دلیل ہے۔ بلوچ طلبات کو کمزور، ڈر اود خوف میں مبتلا کر نے کی ایک ناکام سازش تھی جسے بلوچستان کی بہادر بیٹیوں نے دشمن ریاست کے غلیظ اور بیانک چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے اپنی بے خوفی کا اعلان کر کے ریاستی ہتھکنڈوں کو ترک کر کے اپنی بہادری اور خاموشی کو توڑنے کاایک بے مثال ثبوت دیاہے۔

بلوچ خواتین، بہن بیٹیوں کی عصمت دری ، بچوں کا قتل عام ، ٹارچر سیلوں میں کربناک ازیتیں، بلوچوں کے گھروں ،آبادیوں کو نذر آتش کرنا بلوچ نوجوانوں، طلبات کو سڑکوں اور تعلیمی اداروں سے لاپتہ کر کے بلوچ سیاسی جہد کاروں کو زندانوں میں ڈالنا، ان کو بے رحمی سے مار کر ان کی لاشوں کو مسخ کرنے کے بعد ویرانوں میں پھینک کر دشمن ریاست بلوچ کو نہ ہی خوف زدہ کرکےروک سکااور نہ ہی بلوچوں کے حوصلوں کو پست کر سکا۔ چالیس ھزار بلوچ نوجوان جو تنگ تاریکی زندانوں میں قید موت سے بدتر زندگی گزار نےکے باوجود بھی اپنی حق خودارادیت کے حصول اور جذبہ آزادی سے سرشار پوری قوت کے ساتھ ریاست کےسامنےبر سر پیکار ہیں۔ اس سے بڑی شکست اور کیا ہوسکتی ہے۔

ریاست کی مکمل تباہی اور بلوچ کی منزل مقصد اب دور نہیں، بس ہمیں اپنے قومی آزادی کی اس تحریک کو صحیح سمت دے کر اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست اپنے تمام ناپاک عزائم ، ناکام کوششیں بلوچ پر استعمال کر چکا ہے لیکن دشمن ریاست کو اب مزید اپنی ننگ و ناموس سے کھیلنے کا موقع نہیں دینا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔