لسبیلہ یونیورسٹی کی کرپٹ انتظامیہ
تحریر۔ لطیف سخی
دی بلوچستان پوسٹ
جب انسان ایک سماج میں قدم رکھتا ہے تو ابتدائی دنوں میں سماج کے متعلق غور و فکر کرتا رہتا ہے۔ اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ جب وہ معاشرتی زندگی کی بحرانی کیفیت، بے چینی، لوٹ کھسوٹ، ظلم وجبر اور نا انصافیوں کو دیکھ کر ایک تجسس میں مبتلا رہتا ہے۔ اور انکے ذہن اور تخیل میں مختلف سوالات ابھرنے لگتے ہیں کہ آخر اس استحصحالی نظام کے درپردہ کونسے عناصر موجود ہیں۔ وہ کونسی طاقت ہے جس نے غریبوں کا نوالہ چھین کر انہیں پاکہ کش زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے؟ اس بحرانی صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟ آخر کس کو اس بد امنی کا زمہ دار ٹہرایا جائے؟
یعنی وہ اسطرح کے سوالات کے جوابات کو ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتا ہے۔ اور زہنی توانائی جنکو ایک تخلیقی زندگی کے اور نئے ایجادات کے بارے میں صرف کرناچاہئے تھا ان مسائل کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے پر صرف ہونے لگتے ہیں۔
آج کل لسبیلہ یونیورسٹی سمیت بلوچستان کے تمام طلباء ان مسائل اور پیچیدگیوں سے دوچار ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے کیلئے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ معاشی مسائل ہو یا یونیورسٹی انتظامیہ کی نا اہلی اور لوٹ کھسوٹ کے مسائل ہوں۔
آج کے اس جدید سائنسی دور میں دوسرے ممالک ترقی کی شاہراہوں کو عبور کرچکے ہیں مگر بد بختی سے ہم کو بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ ترقیاتی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی نے اس حد تک انسانوں کے زندگی کے پیچیدہ کاموں کو سہل بنایا ہے جو زندگی کے ہر موڑ میں انسان ان سے استفادہ حاصل کرچکے ہیں۔ کیونکہ وہاں تعلیم نظام مستحکم اور مضبوط ہے۔ تعیلمی ادارے بڑے بڑے انجنئیرز، ڈاکٹرز، اور مکینکس پیدا کر رہے ہیں جہاں ہر کام مکینائزیشن کے زریعے آسان ہوتا جا رہا ہے۔
یہ سارے ایجادات قدرت کی طرف نزول نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کا کریڈٹ وہاں کہ منصفانہ اور نظام یگانگیت کو حاصل ہے۔ جسمیں نوجوان اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی سر انجام دے رہے ہیں کیونکہ انکی ساری توانائیاں اپنے مقصد کیلئے صرف ہو رہی ہیں ۔ ہماری طرح پانی اور بجلی کی حصول کیلئے احتجاج پر نہیں۔
ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس استحصالی نظام کی بہتری کیلئے بھی آواز نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ڈر اور خوف نے ہماری زہن میں اسطرح جگہ بنالی ہے کہ ہم اپنے سلب کیے گئے حقوق کی حصول کیلئے جدوجہد کرنے سے کتراتے ہیں اور ایک زندہ لاش کی طرح گھومتے پھرتے ہیں حالانکہ اپنے جائز حقوق یعنی تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات کیلئے آواز اٹھانا آئینی اور قانونی حق ہے۔
اگر کسی ملک کے تعلیمی اداروں میں کرپشن عروج پر ہو تو وہاں طلباء کی زندگی کو دھوکہ دہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
بدبختی سے ہمارے تعلیمی ادارے بالخصوص بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ اتنے خود مختار بنائے گئے ہیں جہاں فنڈز اور اسکالرشپس کو چند افراد اتنی آسانی سے ہڑپ کرتے ہیں مگر ان کو پوچھے کون؟ مذکورہ بالا بے قاعدگیوں کو دیکھ کر اگر ہم لسبیلہ یونیورسٹی کو پرکھنے کی کوشش کریں تو یہاں بدترین کرپشن دکھنے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ سرکاری سطح پر لسبیلہ یونیورسٹی کو سالانہ بجٹ میں کروڑوں روپے فنڈز ملتے ہیں مگر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ فنڈز کہاں اور کیسے خرچ ہوتے ہیں۔
یہاں نہ کوئی اچھا ریسرچ سنٹر بنایا گیا ہے اور نہ ہی لیبارٹریز میں کوئی ایسی انسٹریومنٹ مہیا کیا گیا ہے جس سے طلباء استفادہ حاصل کرسکیں۔
اگر ہم فیس اسٹرکچر کی بات کریں تو ایک ہی سمسٹر میں تین چار مرتبہ فیس اسٹرکچر کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے اور ہر مرتبہ فیس اسٹرکچر میں تبدیلی لائی جاتی ہے جسکے نتیجے میں کچھ طلباء کو زیادہ اور کچھ طلباء کو کم فیس جمع کرنے پڑتے ہیں۔
میرٹ کی پامالی نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹ بیس پر ایسے ٹیچرز کو تعینات کرچکا ہے جو اپنے منصب کی زمہ داریوں کا غلط فائدہ اٹھاکر طلباء کی آواز کو اس حد تک دبایا جا رہا ہے کہ یہاں کئی طلباء کو ایک ہی سبجیکٹ میں تین تین مرتبہ انرولمنٹ کرنا پڑ چکا ہے۔ جس کے مضر اثرات طلباء کی زہن پر پڑ چکے ہیں۔ اور وہ اپنی سبجیکٹ کے متعلق سوالات سے کتراتے ہیں کہ شاید یہ بات ٹیچرز کو گوارہ نہ ہو اور وہ اپنے سبجیکٹ میں انہیں فیل کرے۔
سینئر طلباء کے بدحالی کو دیکھ کر جونیئرز یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ انکی طرح ہمارا حشر برا نہ ہو۔
اسکالرشپس اور اسٹڈی ٹوورز بھی لسبیلہ یونیورسٹی کو دوسرے یونیورسٹیز کی طرح ملتے ہیں مگر غریب طلباء اس حد تک مایوس کن کیفیت میں مبتلا ہیں کہ وہ ان اسکالرشپس کیلئے فارم جمع کرنے کا نہیں سوچتے کیونکہ انکو پتہ ہے کہ یہ اسکالرشپس غریبوں کو نہیں ملتے ہیں بلکہ اثر ورسوخ رکھنے والے افراد یا انتظامیہ کے قریبی رشتہ داروں کو ملتے ہیں۔
اسٹڈی ٹوورز کیلئے طلباء کو دربدر کی ٹوکھریں کھانے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اسٹڈی ٹوورز کا کوئی فائدہ نہیں اب امتحانات قریب ہیں پڑھائی پر توجہ دیجئے یہ نہ ہو کہ امتحان میں فیل ہو جائیں۔ اتنی آسانی سے اسٹڈی ٹوورز کے لاکھوں روپے کو ہڑپ کرکے طلباء کو مایوس کیا جاتا ہے۔
لسبیلہ یونیورسٹی کروڈوں روپے کی لاگت سے پانچ ہاسٹلیں تو بنایا جا چکا ہیں مگر بجلی، پانی، انٹرنیٹ سمیت دیگر سہولیات مناسب انداز میں مہیا کرنے سے اب تک ناکام ہوچکا ہے۔ جو کہ طلباء کی بنیادی ضروریات سمجھے جاتے ہیں۔
چار سالوں سے پانچ یا چھ کمروں پر مشتمل براہ نام ایک ہسپتال بنایا گیا ہے اور شاید تین یا چار ایسے ڈاکٹرز تنخواہ لے رہے ہیں جنہوں نہ آج تک ہسپتال کا منہ بھی نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی اس ہسپتال سے کوئی اسٹوڈنٹس نے پیناڈول کی گولی حاصل کی ہے۔ گزشتہ سال دو طلباء ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے اس جہان فانی سے رخصت ہو کر والدین کی خوابوں کو ادھورا چھوڑ چکے ہیں۔
آخر ان سب کرپشن کا ذمہ دار کون ہے؟ بلوچستان کی بڑے یونیورسٹیوں میں شمار لسبیلہ یونیورسٹی آج ایسی بحران سے دوچار ہے جہاں طلباء روز مایوس کن حالات سے دوچار ہیں۔
ہم گورنر بلوچستان، اسپیکر بلوچستان، وزیر اعلی جام کمال صاحب اہم گورنر بلوچستان، اسپیکر بلوچستان، وزیر اعلی جام کمال صاحب اور ایچ ای سی کے اعلیٰ آفیسران سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے کر لسبیلہ یونیورسٹی کے بے قاعدگیوں، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف نوٹس لیں۔ تاکہ طلباء اس مایوس کن صورتحال سے نکل کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔