بلوچ طالب علم رہنما شبیر بلوچ اور انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کے عدم بازیابی کے خلاف سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جارہی ہے جہاں مختلف صارفین سمیت سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ بی ایچ آر او کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شبیر بلوچ اور راشد حسین پاکستانی ریاستی اداروں کے تحویل میں ہیں اور دونوں کے کیس میں اداروں کے جانب سے بہت لاپرواہی برتی گئی ہے جس سے ریاستی اداروں کے ناپاک عزائم کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ بلوچ کارکنان کو اغوا کرے۔
It s undeniable &known to every1 tht Shabir &Rashid r in custody of forces &the hard evidences n both cases prove it.The issue s both cases were not addressed accordingly &this negligence embolden forces &they continued disappearing activists #SaveRashidHussain #SaveShabirBaloch pic.twitter.com/2IOylOqs87
— Abdulla Abbas Baluch (@AbdulahAbbass) October 4, 2019
خیال رہے راشد حسین بلوچ کو گذشتہ سال متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور بعد ازاں انہیں پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن تاحال راشد حسین کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔
دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنما شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کو چار سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہیں چار اکتوبر 2016 کی صبح بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے فورسز نے ایک آپریشن کے دوران اس کی بیوی زرینہ بلوچ سمیت گاوں کے کئی افراد کے سامنے حراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
اس حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ برطانیہ زون کے صدر حکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچ کارکنان اور سیاسی لیڈران کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے اپنے زر خریدوں کے ذریعے انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ انہیں بناء کسی کے سوال کے قتل کیا جاسکے اور کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہونا پڑے۔
Instead of producing them before a court of law. Pakistani security forces use their hired trolls to label Baloch political leaders, students, HR activists as terrorists. In this way they can torture them, kill them without being questioned. #SaveShabirBaloch #SaveRashidHussain
— Hakeem Baloch (@HakeemWadhela) October 4, 2019
بلوچستان میں دیگر بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے جس کو بلوچ سیاسی و سماجی جماعتیں ’انسانی بحران‘ قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے گذشتہ دنوں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے اپنے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورہ بلوچستان کے بعد ”بلوچستان: تاحال نظرانداز” کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کو اٹھا کرغائب کرنے کا سلسہ جاری ہے جبکہ اس معاملے کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اورآواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔