لاپتہ افراد کے معاملے میں لاپرواہی سے خفیہ اداروں کے عزائم کو تقویت مل رہی ہے – عبداللہ عباس بلوچ

380

بلوچ طالب علم رہنما شبیر بلوچ اور انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کے عدم بازیابی کے خلاف سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جارہی ہے جہاں مختلف صارفین سمیت سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ بی ایچ آر او کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شبیر بلوچ اور راشد حسین پاکستانی ریاستی اداروں کے تحویل میں ہیں اور دونوں کے کیس میں اداروں کے جانب سے بہت لاپرواہی برتی گئی ہے جس سے ریاستی اداروں کے ناپاک عزائم کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ بلوچ کارکنان کو اغوا کرے۔

خیال رہے راشد حسین بلوچ کو گذشتہ سال متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور بعد ازاں انہیں پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن تاحال راشد حسین کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنما شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کو چار سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہیں چار اکتوبر 2016 کی صبح بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے فورسز نے ایک آپریشن کے دوران اس کی بیوی زرینہ بلوچ سمیت گاوں کے کئی افراد کے سامنے حراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

اس حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ برطانیہ زون کے صدر حکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچ کارکنان اور سیاسی لیڈران کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے اپنے زر خریدوں کے ذریعے انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ انہیں بناء کسی کے سوال کے قتل کیا جاسکے اور کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہونا پڑے۔

بلوچستان میں دیگر بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے جس کو بلوچ سیاسی و سماجی جماعتیں ’انسانی بحران‘ قرار دے رہے ہیں۔

اس حوالے سے گذشتہ دنوں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے اپنے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورہ بلوچستان کے بعد ”بلوچستان: تاحال نظرانداز” کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا کہ بلوچستان میں  لوگوں کو اٹھا کرغا‏ئب کرنے کا سلسہ جاری ہے جبکہ اس معاملے کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اورآواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔