غیر محفوظ بلوچ طلباء
تحریر: مقصود بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ طلبہ پر ہر سال یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر ظلم اور نہ انصافی ناقابل برداشت ہے، ہم اپنے صوبے سے نکل کر پاکستان کے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو ہم پر ظلم اور نہ انصافی کیا جاتا ہے، ہمیں اپنے سرزمین پر اچھا تعلیم میسر نہیں ہے اور جب ہم باہر دوسرے صوبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ہم ظلم اور جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے ماں باپ بھائی بہن سب رشتے داروں سے دور تعلیم حاصل کرنے کےلیے دیگر شہروں میں اپنی مستقبل سنوارنے کیلۓ جاتے ہیں تو وہاں ہم محفوظ نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں تو ہم کو وہاں کے لوگ جاہل اور فراری سمجتے ہیں۔ جب ہم خاموش رہتے ہیں تو ہر سال ہمیں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح گذشتہ سال BZU میں ایک بلوچ طلبہ پر تشدد کیا گیا تھا، اس کے خلاف بھی حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور ہم لوگوں کو زبردستی خاموش کرایا گیا اور ہم صرف تماشائی بن گئے، اگر اس وقت ہم بلوچ اسٹوڈنٹس ملکر ان کے خلاف آواز بلند کرتے تو شاید آج Pu کے اندر بلوچ طلبہ پر اس طرح کا تشدد نہ ہوتا.
جب ہم سب اس طرح خاموش رہ کر سب کچھ برداشت کرتے رہے تو یہ ظلم اور نہ انصافی ہر سال ہم پر بڑھتے رہینگے، اس وقت PU میں جمعیت والوں نے بلوچ کاؤنسل کے چئیرمین اور اسکے ساتھیوں پر جو حملہ کیا اسکی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
یہ جو نعرہ ہے جمعیت والوں کا اگر Puمیں رہنا ہے تو جیۓ جمیت کا نعرہ لگانا ہے، اس سے صاف الفاظ میں ظاہر ہوتاہے کہ جمعیت والے خود کو اسٹوڈنٹ نہیں بلکہ بدمعاش سمجتے ہیں۔ اسکے بعد سر سید یونیورسٹی کے اندر بلوچ طلبہ پر حملہ کیا گیا ان کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد سر سید یونیورسٹی میں نعرہ گونج رہا تھاکہ Puوالوں نے آپکو ناشتہ کروایا ہے ابھی دعوت ہم لوگ آپکو دینگے۔
ان لوگوں کی دل ءُ دماغ میں ایک بات ہونا چاہیئےکہ بلوچ کیسے مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمان کا کس طرح استقبال کرتے ہیں، ہم لوگ اگر اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دےرہے ہیں، تو اسکا یہ مطلب نہیں ہیکہ ہم کمزور ہیں، ہم امن پرست ہیں اور امن چاہتۓ ہیں ہم علم کے بھوکے ہیں اور اسٹوڈنٹ ہیں اسٹوڈنٹوں والا رویہ اختیار کرر ہیں، اگر ہماری خاموشی یا جواب نہ دینے کو کوئی ہمارا ڈر یا کمزوری سمجھ رہا ہے تو یہ انکا سب سے بڑا غلطی ہے.
ہم اپنے قومی نمائندوں سے اپیل کرتے ہے کہ پنجاب حکومت سے فوری طور رابطہ کریں تاکہ پھر کوئی بلوچ اسٹوڈنٹس ان غنڈہ گرد گروپوں کے تشدد کا نشانہ نہ بنے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔