غضب ناک زندان – میرین بلوچ

344

غضب ناک زندان ”بانک زرینہ مری سے بہن شہناز اور صنم تک”

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ میں ہمیں مصروفِ عمل بہت سی خواتین ملیں گی جنہوں نے سیاسی، سماجی، معاشی و اقتصادی اور ثقافتی تبدیلی و ترقی میں اہم کردار ادا کی ہے۔ خواتین دنیا میں کہیں بھی ہوں، خواتین کے کردار و عمل سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ مردوں کے برابر دنیا کی نصف آبادی خواتین کی بھی ہے۔

ہم اگر اپنے بلوچ معاشرے میں خواتین کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو بلوچ معاشرے میں خواتین کو افضل مقام حاصل ہے بلوچ معاشرے میں اگر کوئی خون کرے تو عورت گھر میں گُھس جائے تو وہ خون کو بھی معاف کیا جاتا ہے۔

لیکن آج انہی بلوچ خواتین کو پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اغواء کرکے اپنے عقوبت خانوں کی ذینت بنا رہے ہیں، ان کے ساتھ انسانیت سوز ٹارچر کے ساتھ اُنکی عصمت دری بھی کیا جارہا ہے۔

یہ وہی فوج ہے جس نے 1971میں بنگلہ دیش کے خواتین اور بچوں کی بے حرمتی کی اور نوے ہزار سے زائد خواتین کو اپنے حوس کا نشانہ بنایا اور انہیں حاملہ کیا۔ وہی طریقہ وہ آج بلوچستان میں اپنا چکا ہے اور بلوچوں پہ ظلم و ستم کی پہاڑ گرا چکا ہے کئی نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں بند کرکے اُن پہ انسانیت سوز تشدد کے بعد اُنکی مسخ شدہ لاشوں کوویرانوں اور جنگلوں میں پھینک دیتے ہیں۔

آج مجھے اسی درد نے، ہر لکھاری کولکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور یہ یہی درد ہے جس نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا اور درد نہ لکھنے اور بولنے میں ظاہر ہوتا بلکہ وہ اپنے آپ کو خود ظاہر کرتا ہے۔

آج میرے الفاظ بھی تشدد سے جڑے ہیں اور میرے الفاظ بھی بند کمرے کے کہانی پر پورا تو اتر نہیں سکتے ہیں جتنی میری گنجائش ہے وہ میں ضرور لکھوں گا اور آج میں لکھوں گا بند کمرے میں بند اپنے بہنوں کے بارے میں۔

21اپریل دوپہر کا وقت تھا گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھی گھر کے آنگن میں بچے تتلیوں کی مانند کھیل کود میں مصروف تھے۔ ماں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی تھی اور بہنیں کچھ دنیاوی کاموں میں گپ شپ کے ساتھ ساتھ کام میں مصروف نظر آرہی تھیں۔ اچانک کچھ گاڑیوں کی آواز سنائی دی گئی تو ماں نے سب کو آواز دی جاؤ دیکھو یہ کیسی گاڑیوں کی آوازیں ہیں۔

بڑی بہن فوراً گھر سے نکلی اور دیکھا تو قابض پاکستانی فوج کے 25 گاڑیاں ہیں،اور ہمارے گھر کی طرف آرہے ہیں کچھ لمحے کے بعد ریاستی فوج نے گھروں کو گھیرنا شروع کردیا۔اور آخر کار رات 10بجے کو ریاستی فوج نے گھر میں گھس کر خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور باپ عبدالحئی اور بڑی بیٹی شہناز اور اُنکے کمسن 18مہینے کااکلوتابیٹھا فرہاد اور میر اسداللّہ کے اہلیہ بی بی نازل کو انکے چھ برس کی جڑواں بچے بیٹاا عجاز اور بیٹی دُردانگ اور بہو صنم بی بی کو اُنکے 13دن کی ننھی بیٹی ماہ دیم اور 7 برس کا بیٹا ملین کو بے رحمی سے گھسیٹ کر گاڑیوں میں دھکیل دیا اسی طرح خاندان کے نو افراد کوفوجی کیمپ منتقل کر کے عقوبت خانوں میں بند کر دیا گیا۔ چھوٹے فرھاد کی فریاد سے بہن شہناز کے آنکھیں اشکبار تھیں، یہ لمحے کیسے گذرتی ہیں صرف ایک ماں ہی جانتی ہے۔

وہ ماہ دیم جسکی عمر تیرہ دن تھی اور وہ نہیں جانتی تھی کہ دنیا کیسی چیز ہے اور اسکی رونے اور فریاد سے شاید اس وقت آسمان بھی رونے لگا ہوگا اور زمین تنگ آچکی ہوتی ہوگی، جو اس وقت صرف دو گھونٹ دودھ کے لئے ترس رہاتھا۔

دشمن سے رحم کی امید رکھنا شاید بیوقی ہی ہوگی اور وہی ہوا نہ نیوز چینلوں پہ یہ واقعہ ہیڈ لائنوں کی زینت بنی اورنہ ہی برکنگ نیوز بن سکا، اس فوج سے لے کر میڈیا ہاؤسز سب ایک کشتی کے مسافر بن چکے تھے، ان معصوم اور ننھے بچوں اور لاچار عورتوں کے لئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جو بلوچستان میں رونما ہوا ہو اس طرح کے واقعات تو پچھلے کئی دہائیوں سے چلتے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ڈیرہ بگٹی اور آواران،جھاؤ اور مشکے،مکران میں کئی خواتین کو حراست کے بعد عقوبت خانوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ بانک زرینہ مری کو آج کئی عرصہ گزرچکا ہے جو آج تک بھی لاپتہ ہے اسی طرح آوران میں بہن شہناز ؤ صنم اور نازل بی بی کو بھی حراست میں لے کر عقوبت خانوں میں منتقل کردیا۔اورآج بلوچستان کے ہر گھر میں مائیں،بہنیں سب کے سب نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور سب یہی سوچ رہے ہیں نہ جانے کب ہماری باری آجائیگی۔

آج بلوچستان میں اس طرح کی کئی کہانیاں آپ کو مل سکتی ہیں جنہیں لکھنا شاید میرے بس سے باہر ہی ہوگا اور اس طرح کے واقعات کے بارے میں لکھنے بہت بڑی ہمت چاہیے ہوتی ہے شاہد وہ ہمت بھی میرے پاس نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔