طلبہ یونین کی بحالی، وقت کی اہم ضرورت
تحریر: شبیر بلوچ
(مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی)
دی بلوچستان پوسٹ
طلبہ سیاست یا یونین کی تعلیمی اداروں میں بحالی کو محسوس کرنا ہماری شعوری عمل کا حصہ ہے روز اول سے لیکر آج تک اس کی اہمیت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکا۔ لیکن ہماری کم علمی یا واضح حکمت عملی نہ ہونے کے باعث ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، جسکے اثرات نے آج ایک ہولناک کینسر کی شکل اختیار کر رکھا ہے۔ جسے قومی بحران کے مترادف کہنا غلط بھی نہیں ہوگا۔ قوم کا باشعور طبقہ اور مستقبل کے معماروں کو اسکے بنیادی حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کا مقصد تعلیمی اداروں میں سیاسی معاملات پر مختلف فورمز میں طلبا کی نمائندگی کرنا اور مختلف تریبتی پرگراموں کا انعقاد کراتے ہوئے سماج میں سیاسی شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ لیکن اشرفیہ طبقے کے جانب سے تعلیمی اداروں میں خوف کی فضا کو برقرار رکھنے کی خاطر ایک نئی منظم سازش اور مکاری رچائی گئی ہے جس کے تحت تنظیم، شعور، ادارہ سازی، زہنی و فکری تربیت، اکیڈمک ماحول، جستجو و تجسس والے رجحان ہمیشہ ناقابل برداشت اور ناقابلِ قبول اعمال ہوتے ہیں۔
شعور اور عمل ہی مثبت کردار کا ضامن ہوتا ہے، جس کیلئے نوجوانوں کو ہردم خود کو تیار کرنا چاہیئے نہیں تو ہمیشہ غلط سمت اور غلط رخ کا سفر کرنا اپنے مقدر کی تباہی ہے۔ جستجو اور تجسس کے دامن کو تھام کر قدم اٹھانا ہی ہماری سیاسی بصیرت اور سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے۔
لیکن بدقسمتی سے طلبہ یونین کو اپنے حقوق کے لیے یونین سازی کا اختیار نہیں ہے. طلبہ ایک ایسی قوت ہیں جسے اگر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیاجائے تو کوئی بھی انقلاب پربا کرسکتے ہیں۔
طلبہ تنظمیں ایسے حالات اور ایسی سیاسی پابندیوں کا شکار ہوچکے ہیں جہاں وہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی سیاسی حقوق کیلئے عملی میدان میں کود چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کو ممنوع قراردیا گیا تو متبادل جگہ کونسی ہے جہاں سیاسی گفت و شنید کے ماحول کو پروان چڑھایا جائے اس کے علاوہ سیاست خود علم و شعور، سنجیدگی اور دانشمندی کا نام ہے۔ علمی درسگاہوں میں اتنظامیہ کی اپنی نااہلی کی ذمہ داری طلبہ کے اوپر تھونپ دینا اور دوسری جانب طلبہ یونین کے مقاصد پر بالادست قوتوں کی طرف سے رکاروٹیں ڈالنا اس امر کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ قومی سیاست میں مفلوج اور نابلد سیاسی قیادت بلوچستان کی محرومیت کو ختم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ بلوچستان کی اصل محرومی وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ طلبہ یونین کی شعوری جدوجہد کے راہ میں کاوئنٹر پالیسی ہے۔ جو بلوچستان کو مزید محرومی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
حاکمیت کی ذہنیت و اشرافیہ اور غیرسیاسی اعمال کو قبول کرنا قومی بےحسی کو ظاہر کر رہا ہے۔ اب ان حالات میں سیر حاصل بحث و مباحثہ اور ان کا مستقل حل کہاں اور کیسے نکلے گا اس کی ابھی تک وضاحت نہیں ہو ئی ہے۔ ایک ہی بحران و مسئلہ ہمیشہ درجن بھر بحرانوں اور مسائل کو جنم دیتا آ رہا ہے۔
ادارے کے اندر تمام سیاسی معاملات اور فیصلہ سازی میں انکی رائے شامل کرنا ایک مثبت عمل ہے اسکی واضح مثال امریکہ برطاینہ اور روس کے اعلی پائے کے یونیوسٹیز میں مضبوط شکل میں ملتا ہے۔انڈونیشیا کے طلبا اس کی بہترین مثال ہیں انہوں نے قومی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ نظریات کو پھیلانے کا کام بھی کیا جدید چین کی تخلیق میں چواین لائی اور ڈینگ شیاو ینگ جیسے طالب علموں نےمعاشرے کی نظریاتی تربیت اور سیاسی بالیدگی میں اہم کردار ادا کیا۔
سیاست ہمیشہ متحرک اور باشعور افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں سیاست کی اہمیت و افادیت سے باخبر ہوکر شعوری جدوجہد کا حصہ دار رہتے ہوئے روشن سماج کے خواب کے تعبیر کو پورا کرسکتے ہیں یونین کی بحالی قومی ترقی کا ضامن ہے۔
ایک حقیقت ہر وقت ذہن نشین ہونا چاہیئے، یہ وقت انتظار اور حالات کے رحم و کرم پر رہنے کا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ مستقبل کے ادراک اور پیش بینی کے ساتھ مکمل باعلم اور باخبر ہوکر صرف علمی جدوجہد کرنا ہی ہمیں ایک مقصد تک پہنچائے گا۔ ورنہ ہم تاریخ کے کٹہرے میں ہونگے جہاں ہماری آنے والی نسل ہمیں آج کا مجرم سمجھے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔