شہید مہیم جان اور شہید اورنگ جان
تحریر: واحد بخش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہاتھ میں قلم رکھ کر دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں، دماغ کام کرنا چھوڑ جاتا ہے، سنبھلنے کی کوشش کے باوجود لکھنے کا تجسس پیدا ہوتا ہے کہ لکھو جس کے بارے میں لکھ رہے ہو وہ تعریف کا محتاج نہیں بلکہ وہ اپنے کرداروں سے پہچانے جاتے ہیں، جانتا ہوں وہ میرے قلم کا محتاج نہیں لیکن لکھتا ہوں تاکہ اپنے ضمیر کو مطمین کر سکوں، جو بار بار مجھ سے سوال پوچھتا ہے۔ وہ وطن کا فرزند تھا انھوں نے اپنی جان وطن کے لیئے قربان کی۔
میں ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر چند حروف آپ کے نذر کر رہا ہوں، آپ کو کس نام سے لکھوں مہیم جان ؟ آپ نے کہا تھا کہ لوگ مجھے پپو کے نام سے پکارتے ہیں، میرا نام نا پپو اور نہ ہی مہیم میرا نام ہے، میرے باپ نے میرا نام رحمین رکھا ہے اور لوگ مجھے دوستی سے پپو پکارتے ہیں۔ آپ چھوٹے تھے تو آپ کا نام مہیم تھا، اس لیے میں آپ کو مہیم جان لکھ رہا ہوں۔ جب آپ کا ذکر ہو اورنگ کا خیال آتا ہے، اورنگ کے بغیر قصہ ادھوری رہ جاتی ہے، آپ دونوں اپنے کرداروں سےدوسروں سے منفرد رہے۔ کہتے ہیں انسان اپنے ماحول کا پیداوار ہوتا ہے، ماحول اچھا ہو اور انسان کی پرورش، تعلیم و تربیت، صحت بخش ہو اس کا کردار صالح ہوتا ہے اورنگزیب شہید ناکو عرف نوروز کا رشتہ دار تھا، اس پر شہید ناکو خیر بخش کا دست شفقت رہا لیکن مہیم جان آپ نہ ایسے ماحول میں رہے اور نہ ہی آپ کو کسی کی تربیت رہی، غریبی کے سوا آپ کے پاس کچھ نہیں رہا لیکن وطن کی محبت نے آپ کو مجنون بنا دیا تھا اس لیے آزادی کے کاروان میں اپنے جگری ساتھی اورنگ جان کے ساتھ اس کھٹن اور مشکل راستے کا انتخاب کیا۔
شہید اورنگزیب عرف شادین اور شہید مہیم جان عرف پپو دونوں قریب رہتے تھے، پارٹی میں آنے سے پہلے وہ ایک دوسرے سے انجانے تھے، پارٹی جوائن کرنے کے بعد دونوں ساتھ رہے، عمر سے شادین 19 سال کے تھے اور مہیم جان 26 سال کا تھا۔ دونوں بہت چھوٹے تھے، اس غلام معاشرے میں چھوٹی سی عمر میں بھاری ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں، اپنے کرداروں کی وجہ سے علاقے کے لوگ ان دونوں نوجوانوں سے بہت مثاتر تھے، دونوں ہر وقت جہاں بھی جاتے تو اکھٹے جاتے تھے، لوگوں کی حوصلہ افزائی کرکے دشمن کے پروپگنڈوں سے اپنے عوام کو آگاہی دیتے رہےکہ آپ دونوں نے ایک ایسا راستہ چنا ہے جس میں دشواریاں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جس راستے میں دشواریاں ہوں اس کا انتخاب انقلابی لوگ کرتے ہیں۔ میں آپ کو اس لیے انقلابی کہتا ہوں آپ کے اپنے ذاتی خواہشات نہیں تھے، وطن کی محبت قوم سے جنون کی حد تک دوستی تھی، دونوں زیادہ پڑے لکھے نہیں تھے، اس کے خون میں صرف وطن کا جذبہ تھا، یہ دونوں اپنے علاقے میں دوستی کا سمبل بن گئے تھے۔ آپ جہان بھی جاتے لوگ ان کے اردگرد جمع ہوتے نظر آتے تھے اپنے کرداروں کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بناتے رہے، کبھی ہوٹلوں اور کبھی دکانوں میں لوگوں کا محفل سج جاتا، شہید مہیم جان اور شہید اورنگزیب لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ شہید مہیم جان پارٹی کاموں میں نمایاں نظر آتے تھے اپنے مخلصی کی وجہ سے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے تو دشمن نے ان کے خاندان اور دشتہ داروں کو ٹارچر کرنا شروع کیا تاکہ شہید مہیم جان کو کمزور کر سکیں۔ ان کے کئی قریبی دشتہ داروں کو اغوا کرلیا گیا، شہید مہیم نے اپنے دوستوں کی محفل میں کہا تھا کہ اس نوجوانی کی عمر میں خواہشیں ہر کسی کی ہوتی ہیں کہ اپنے دشتہ داروں ،خاندان کے ساتھ رہوں ہم نے یہ تمام خواہشیں چھوڑ کر آزادی کے راستے کا انتخاب کیا تو دشمن کا یہ حربہ ہمیں کمزور کرنے کے بجائے اور مضبوط کرتا ہے۔
شہید مہیم جان کو میں قریب سے جانتا ہوں وہ عام انسان نہیں تھے، وہ ا ایک مضبوط اور نڈر انسان تھے۔ چھوٹی موٹی باتوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اسی لیے دشمن انھیں شکست نہیں دے سکے۔ شہید مہیم جان کمانڈر رہے، شہید اورنگزیب عرف شادین ایک بہادر سپاہی کی حیثیت سے کام کرتے رہے، ان کی بہادری کو دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوتے رہے، دشمن کی چالاکیوں نے انھیں شکست دینے کے بجائےان کا نام سن کر خود خوف کھاتے تھے۔ آپ دونوں نے ایک دوسرے سے کہا تھا ہم دونوں آخری وقت تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے تو ہم ہنس کر سنتے تھے یقین نہیں کرتےلیکن آپ نے اپنی دوستی کا ثبوت دیا زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے مرتے دم تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے۔
7/8/2018 کوجھاؤ شندی کے پہاڑوں میں اپنے دیگر دو ساتھیوں شہید گلشیر اور شہید راشد جان کے ساتھ دشمن کے ساتھ آمنے سامنے لڑتے ہوئے اپنی جان اپنے وطن کے لیے قربان کی، دشمن فوج نے حواس باختہ ہو کر پورے علاقے کو چار دن تک سیل کیئے رکھا، آپ کی بہادری کی داستان فوج نے لوگوں کو بتایا ہمارے کئی فوجی مارےگئے، شہید مہیم اور اورنگزیب بہت بہادر نکلے آپ کی بہادری کی داستان ہمارے حوصلوں کو بلند کرتے رہیں گے، آپ نے اپنا فرض پوراکرکے زمین کا قرض چکا دیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔