شہید صبا دشتیاری کے نام کھلا خط
تحریر : کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
صبا صاحب! مجھے پتہ نہیں آپ کو سلام دوں یانہیں ، اگر آپ آج زندہ ہوتے اگر میں آپ کو خط لکھ رہا ہوتا تو ضرور خط لکھنے سے پہلے میں آپ کو سلام دیتا۔ مگر کیا کروں پتہ نہیں وہاں سلام دینے کی روایت ہے یا نہیں، مجھے کچھ پتہ نہیں میں اس دنیا میں اور آپ اُس دنیا میں مجھے، کچھ پتہ نہیں کہ میرے اور آپکے طرز زندگی میں کتنا فرق ہے۔
میں اپنے طریقے سے کچھ باتیں آپ سے کرنا چاہوں گا۔ پہلے پہل میں آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔ آپ کو ہم سے بچھڑے کئی برس مکمل ہوگئے ہیں اور میں نے اتنے سالوں میں نہ ہی آپکے لئے کچھ کیا نہ ہی اپنے لئے، ناجانے یہ میرا ڈر تھا یا کچھ اور، آج بھی یہ سوال میرے ذہن میں گردش کررہا ہے اور اس سوال کے جواب تک میں آج تک نہیں پہنچاہوں۔ اس برس جب آپکا برسی آرہا تھا، پہلے میں نے سوچا آپ کا کوئی اچھا سا تصویر لے کر فوٹو شاپ کے ذریعے ڈیزائن کروں اور اس کو سوشل میڈیا کا زینت بناوں ۔ پھر میں نے سوچا کہ آپ کے تصویر سے مجھ کو اور آپ کو کیا فائدہ ہوگا، اگر اتنے سالوں میں کچھ نہیں کیا اس بار بھی کچھ نہیں کروں گا۔ اگر اتنے سالوں میں مجھ پہ کوئی فرق نہیں پڑا تو اس برس کیا پڑے گا۔ اور آپکی شخصیت اورکردار میرے تصویر کا محتاج بھی نہیں ہے۔ جو کام آپ نے شروع کیا تھا آپ کے کام میں، میں نے کیا کیا ہے؟ کچھ کیا ہی نہیں پھر میں سینہ تان کر کیوں بڑے ہیرو بننے کی کوشش کروں ۔
صبا صاحب! انسان کے فطرت میں آرام پسندی ہوتا ہے اور آپکے کام میں آرام تو دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ میں کہاں انسانوں سے الگ ہوں ۔ میرے بھی فطرت میں آرام پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ جو کام میں آرام نہ ہو اس میں جانا کنویں میں چھلانگ لگانے جیسا ہوگا، میں کوئی پاگل تو نہیں ہوں جاکراپنے آپ کوکنویں میں گرا دوں۔ کچھ تو پا گل ہوتے ہیں کہ دوسروں کیلئے کنویں میں چھلانگ لگاتے ہیں لیکن میں ان میں سے نہیں ہوں۔
معذرت کے ساتھ اگر آپ برا مت مان لیں۔ آپ بھی ان پاگلوں میں سے ایک تھے۔ شاید آپ میرے اس بات کو سن کر برا ضرور مانوگے ۔ اگر میں دنیا داری نبھاتاہوں تو آپ پاگل تھے۔ ایک بیس بائیس گریڈ کا پرو فیسر جاکر دنیا کے آٹھویں ایٹمی طاقت کو برا بلا کہے اور اس کے موت کا سبب بھی یہی بنے، میں اسے پاگل نہیں تو کیا کہوں؟ اور ان لوگوں کے پیچھے یہ باتیں کریں جن میں اکثر یت تو نہیں جانتے ہیں ہمارا اصل مسئلہ ہے کیا؟ جو جانتے ہیں اور وہ بھی نہیں جانتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے، بس من ہی من میں اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں اور عمل کے میدان میں زیرو بٹا زیرو ہیں۔
آپ تو بلوچوں کی آزادی اور خوشحال کی بات کرتے تھے ہمارا حال تو یہ ہے کہ بلوچوں کی آزادی اور خوشحالی دور کی بات ہے۔ ہم چھوٹے مسئلوں پہ ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑے ہوئے ہیں۔ اور بات تو ہم بہت بڑے بڑے کرتے ہیں۔ اور ہمارا حال ایسا ہے کہ ابھی تک بلوچی زبان کو لکھنے کا آئین میسر نہیں۔ اب میں کیا کہوں؟
گلہ شکوہ میں نے شروع کیا ہے ۔ تو آج بہت سی باتیں کرینگے۔ اگر آپ سچ سننا چاہتے ہو۔ تو میں آپ کو ایک سچ اور سناتا ہوں آپ کو معلوم ہے میں نے کیوں اتنے سالوں میں آپ کیلئے کچھ نہیں کیا، تو بات یہ ہے میں بزدل ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے ۔ میں نے اتنی محنت کے بعد جو کمایا ہے، اسے میں ایک جھٹکے میں ختم نہیں کرسکتا۔ مجھے اگر اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے تو میں دوسروں پہ کیسے بھروسہ کرسکتا ہوں یہ تو عام سی بات ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ۔ پاگل بن جاوں اور سب چھوڑ چھاڑ کے آپ کی راہ پہ نکل جاوں مگر کیا کروں، یہ ڈر ہے کہ مجھے پاگل پن سے دور رکھتا ہے۔ آج میں چاہ کر بھی ڈر کو دور نہیں کرسکتا، اگر میں نے ڈر کو دور کیا تو ڈرنے میرے اندر اتنے سارے اولاد پیدا کئے ہیں، میں انہیں دور نہیں کرسکتا ۔ میں نے ایک دن ڈر کو دور کیا پھر میں سوچنے لگا میں اگر جاوں کہاں جاوں ۔ اس کے پاس جاوں جو خود ابھی تک کنفیوژ ہے کہ آج کیا ہورہا ہے؟ آج مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کل کیا ہونے والا ہے اور آج مجھے کل کے لئے کیا تیاری کر لینا چاہیے ۔ یا اس کے پاس جاوں جو ابھی تک نہیں جانتا بلوچوں کے اصل مسائل کیا ہیں۔ آخر میں مایوس ہوکر پھر لوٹ کر ڈر کے پاس گیا۔ جو مجھے سب چیزوں سے ہر وقت بچاتا ہے۔
ایک اور بات ہے میں مایوس ہوں۔ضرور آپ پوچھنا چاہتے ہو کس سے؟ میں آپ کو بتانا چاہونگا اپنے آپ سے کیوںکہ میں بزدل ہوں اور مجھے بہت ڈر لگتا ہے اس لئے بہت سوچتا ہوں کیونکہ پاگل تو نہیں ہوں، میں اور میرے سوچنے کی صلاحیت بھی اتنی نہیں کہ بہت دورتک سوچوں میں اپنے بساط کے مطابق سوچ کر پھر مایوس ہوتا ہوں ۔
ایک اور بات میں بھول چکا ہوں ۔ آج میں شرمندہ بھی ہوں ۔ اگر میں نے اوپر سے سفید کپڑے ضرور پہنے ہیں، مگر اندر سے میں بالکل کالا ہوں ۔ مجھے آج اپنے آپ پہ شرم آتا ہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کل کو کوئی میرا اولاد میرے قبر پہ آنے کے بجائے مجھے اپنانے میں بھی جھجک محسوس کرے گا ۔ ڈر نے مجھے پاگل پن سے دور کیا۔ کاش کے میں پاگل ہوجاتا ۔ آپ جانتے ہو مجھے پاگل پن سے کس نے دور کیا؟ معاشرے نے! ہاں یہی معاشرہ ہے جنھوں نے مجھے پاگل پن سے دور کیا ۔ معاشرے نے مجھے ہر وقت سفید کپڑے پہننے کا جنون سوار کیا اور یہی سفید کپڑوں نے مجھے پاگل ہونے سے دور کیا۔
آخر میں یہ کہنا چاہونگا کاش کے مجھ پر سفید کپڑے پہننے کا بھوت سوار نہیں ہوتا اور کاش کہ میں پاگل ہوجاتا۔ آنا تو ایک دن آپ کے پاس ہے اور شرمندگی اگر محسوس نہیں ہوا آنے کے بعد باقی تمام باتیں تفصیل کے ساتھ آپ سے وہاں کروں گا۔
کمزور اور مایوس کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔