سوشل ازم سائنس ہے | چھٹا حصہ
کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کی انتہائی بیش قیمت زندگی چوں کہ سماجی سیاسی کلیت ہوتی ہے اس لیے اس کی باوقار زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سماجی سیاسی کلیت کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ اس میں مزید اضافہ کرے۔ انسان سماجی جماعت سے سماجی سیاسی کلیت حاصل کرتا ہے۔ سماجی جمعیت انسان کی سماجی سیاسی کلیتکا بانی ادارہ ہوتا ہے لہٰذا انسان کی زندگی کی قدروقیمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ سماجی جمعیت سے وہ کس طرح سے منسلک ہے۔ انسان کی زندگی اس وقت قابلِ قدر ہوتی ہے جب وہ سماجی جمعیت کا محبوب اور بااعتماد فرد ہوتا ہے اور جب وہ اسے بھلا دیں، ترک کر دیں تو اس کی زندگی بے کار محض ہو جاتی ہے۔ انسانی سماجی جمعیت کی محبت اور اعتماد سے اسی وقت بہرہ مند ہوتا ہے جب وہ سماجی جمعیت کے مفادات کو افراد کے مقابلے میں زیادہ عزیز سمجھتا ہو اور جب وہ وفاداری سے سماجی جمعیت کی خدمت کرتا ہو۔ آخری تجزیے میں انسان کی زندگی کی انتہائی بیش قیمت سماجی جمعیت کی محبت اور اعتماد سے بہرہ مند ہوتے ہوئے ایک آزاد اور تخلیقی زندگی گزارنے میں ہے جب کہ اس کے دوران میں وہ اپنے مقدر کو سماجی جمعیت کے مقدر سے وابستہ کر دے اور اس کی دل وجان سے خدمت کرے۔ انسان کے لیے بہ طور ایک سماجی وجود کے اپنی سماجی سیاسی کلیت کو بلند کرنے اور ایک قابل ِ قدر انسانی زندگی بسر کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
آج ایک بورژوائی رجعت پسند اور سوشل ازم کے منحرفین انسان کا انسان کے ذریعے استحصال اور محکومی کو معمول کی باتوں میں سے ایک سمجھتے ہیں اور انسان کو اس کا ذمہ دار ایسا وجود تصور کرتے ہیں جو صرف اپنی ہی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس سے انسان کی زندگی کی قدروقیمت کی بابت بورژوائی نقطہئ نظر اور رویے کی رجعت پسندانہ نوعیت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔
حقیقی انسانی زندگی جو ہر ایک کو اپنی انتہائی بیش بہا سماجی سیاسی کلیت کو بڑھانے کے لائق بناتی ہے اور جسمانی زندگی کے تقاضوں سے بہ طریق احسن عہدہ بر ہو سکتی ہے۔ صرف اجتماعیت پر مبنی سوشلسٹ معاشرے میں ہی حسن و خوبی کے روبہ عمل آ سکتی ہے۔ اس معاشرے میں لوگ ہر قسم کے استحصال اور جبرواستبداد اور محکومی اور غلامی سے آزاد ہوتے ہیں اور سماجی سیاسی اور دیگر شعبوں میں ایک آزادانہ اور تخلیقی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ سوشلسٹ معاشرے میں ہمیں عوام کی تنظیمی اور نظریاتی نیز ثقافتی زندگی کو صحیح طریقے سے منظم کرنا ہوگا تاکہ وہ معاشرے کے مالکوں کے شایانِ ان اعلیٰ شعور اور قابلیت کے ساتھ آزادانہ اور تخلیقی زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔ عوام معاشرے اور جمعیت کے لیے عظیم کردار انجام دے سکتے ہیں اور معاشرے اور جمعیت کے قابلِ فخر افراد کے طور پر ایک قابلِ قدر زندگی بسر کر سکتے بہ شرط یہ کہ وہ آزادانہ شعور سے پوری طرح مسلح ہوں اور انھوں نے تخلیقی استعداد کو اپنی انقلابی تنظیمی اور نظریاتی زندگی اور اپنی اخلاقی اور بیش بہاثقافتی زندگی کے ذریعے جامہ انداز میں ترقی دی ہو۔
ہمارا سوشل ازم اصل میں مرکز البشر سوشل ازم ہے جوانسان کی انتہائی بیش بہا سمجھتا ہے اور اس کی حقیقی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور اس طرح یہ ہر ایک کو اپنی سیاسی سماجی کلیت برقرار رکھنے اور خاطر خواہ طور پر بلند کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ ان کی جسمانی زندگی کے تقاضوں کو بھی کلی طور پر پورا کرتا ہے۔ مرکز البشر سوشل ازم معاشرے کے تمام افراد کو معاشرے اور جماعت کے لیے اعلیٰ درجے کے شعور اور تخلیقی استعداد سے پوری لگن اور جذبے سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ میل جول سے یکساں طور پر زندگی بسر کرنے، معاشرے اور جمعیت کی محبت اور اعتماد سے بہرہ مند ہونے اور مکمل طور پر ایک اعلیٰ قابلِ قدر زندگی گزارنے کے لائق بناتا ہے۔
ہمارا سوشل ازم عوام الناس کے بابت جوچے آمیز تصور اور رویے پر مبنی ہے۔
سوشل ازم کی سچائی اور فوائد کا مظاہرہ لوگوں میں اس کی حمایت اور اس پر ان کے اعتماد سے ہوتا ہے۔ اب چوں کہ ہمارا سوشل ازم عوام الناس کی بابت جوچے آمیز تصور اور رویے پر مبنی ہے اس لیے یہ انتہائی فائدہ مند اور طاقت ور سوشل ازم بن چکا ہے اور لوگوں کی بھرپور محبت اور اعتماد اسے حاصل ہے۔
عوام الناس تاریخ کی قوتِ متحرکہ ہوتے ہیں۔ عوام الناس سے مراد ایک ایسی متحدہ سماجی برادری ہے جو محنت کش لوگوں پر مرکوز ہے۔ اس کی وجہ ان کی خود مختاری کے لیے مشترکہ مانگ اور تخلیقی سرگرمی ہے۔
عوام الناس کے الفاظ طبقاتی معاشرے میں ایک طبقاتی کردار اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک استحصالی معاشرہ استحصالی طبقے، استحصال زدہ طبقے یا حکم ران طبقے یا محکوم طبقے میں منقسم ہوتا ہے۔ اس بات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کون ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور کون اقتدار پر قابض ہے۔ استحصال زدہ طبقہ محکوم عوام الناس کی اکثریت پر مشتمل ہوتا ہے۔ عوام الناس کی طبقاتی ساخت یک ساں نہیں ہوتی سماجی تاریخ کی ترقی کے سات یہ تبدیل ہو جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں نہ صرف محنت کش اور کسان بلکہ کارکن دونش ور اور دیگر بہت سے طبقات اور حلقے بھی جو آزادی و خود مختاری کی حمایت اور اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں عوام الناس کی تشکیل کرتے ہیں۔ سوشلسٹ معاشرے میں تمام لوگوں کو سوشلسٹ کارکن عوام بنا دیا جاتا ہے۔ چناں چہ ہر ایک عوام الناس سے تعلق رکھتا ہے۔ بے شک سوشلسٹ معاشرے میں بھی اقلیتی مخالف عناصر کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں اور انقلابی صفوں میں غدار ظاہر ہو سکتے ہیں لہٰذا سوشلسٹ معاشرے میں عوام الناس اور ان کے مخالف عناصر کے مابین امتیاز کرنا بھی ضروری ہے۔
”عوام الناس“ کے الفاظ سے سماجی اور طبقاتی تعلق کی عکاسی ہوتی ہے تاہم یہ محض ایک طبقاتی تصور نہیں ہے۔ قدرتی طور پر عوام الناس مختلف طبقات اور برادریوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ امتیاز کرنے کے لیے کہ آیا کوئی عوام الناس میں سے ہے یا نہیں، ان کی سماجی اور طبقاتی حیثیت دیکھی جانی چاہیے لیکن اسے حرفِ آخر اور قطعی نہ سمجھا جائے۔ انسان کے خیالات اور رویہ کلی طور پر اس کی سماجی اور طبقاتی حیثیت کے اثر سے مشروط نہیں ہوتا۔ اگر وہ انقلابی اثرات سے گزرا ہے اور ترقی پسند خیالات رکھتا ہے تو وہ قطع نظر اپنی سماجی اور طبقاتی حیثیت کے عوام کی خدمت کرسکتا ہے۔ آیا کوئی عوام الناس کا فرد ہے یا نہیں یہ جانچنے کی بنیادی کسوٹی اس کی سماجی اور طبقاتی اصل نہیں بلکہ اس کے خیالات ہیں۔ وہ نطریاتی بنیاد جس پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو عوام الناس میں متحد کرنا ہے۔ محض سوشل ازم و کمیونزم کا تصور نہیں ہے۔ کوئی بھی جو ملک اور عوام اور قوم سے محبت کرتا ہے وہ لوگوں کی خدمت کر سکتا ہے اور اس طرح سے عوام الناس کا ایک فرد ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ایسے نقطہ نظر سے انقلاب کے ہر مرحلے پر عظیم قائد کامریڈ کم ال سنگ نے ہر ایک کو جو نظریاتی طور پر وطن اور عوام اور قوم کی خدمت کرنے پر آمادہ تھا، ایک انقلابی قوت میں متحد کیا اور انھوں نے کامیابی سے انقلاب اور تعمیراتی عمل کو عملی جامہ پہنایا۔ ہماری پارٹی مختلف طبقات اور برادریوں کے لوگوں پر اعتماد کرتی ہے جو انقلاب میں دل چسپی رکھتے ہیں وہ انھیں انقلاب کی راہ پر گام زن اتفاقیہ رفیق نہیں بلکہ دائمی رفیق تصور کرتی ہے اور سوشل ازم اور کمیونزم راہ پر ان کی قیادت کر رہی ہے۔
سامراجیوں اور رجعت پسندوں کی طبقاتی فطرت انھیں عوام الناس کے مقابلے میں لاکھڑا کرتی ہے۔ چناں چہ وہ ”عوام“ کے لفظ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ اکثر ”قوم“ کا لفظ استعمال کرکے وہ استحصالی معاشرے کے طبقاتی محاذ آرائی اور تنازع کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل ازم کے غدار بھی ابھی عوام دشمن حرکتوں کو ”شہری“ کے لفظ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں جیسے شہریوں کے لیے معاشرہ قائم کر رہے ہیں یہ صحیح ہے کہ رجعت پسندوں اور غداروں کو ”عوام“ کا لفظ مکاری سے استعمال کرتے ہوئے اکثر سنا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دشمن، عوام کے غدار اپنی عوام دشمن فطرت کے محض عوام کا لفظ استعمال کرکے چھپا نہیں سکتے۔ ”عوام“ ایک اعلیٰ لفظ ہے جسے عوام کے وفادار ہی فخر کے ساتھ بول سکتے ہیں اور وہ کمیونسٹ ہیں جو عوام الناس کے مفادات کے لیے خود کو کلی طور پر وقف کر دیتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
عظیک قائد کامریڈ کم ال سنگ اپنی نوجوانی سے ہی عوام کو اعلیٰ ترین وجود سمجھتے تھے۔ انھوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ ملک میں اہم عمارتیں، ملک اور بہت سی اعلیٰ اور خوبصورت اشیاء عوام سے موسوم کی جائیں۔ چوں کہ ہمارا سوشل ازم عوام کو ایسے بیش بہا وجود تصور کرتا ہے یہ عوام پر مرکوز سوشل ازم بن گیا ہے، انتہائی سود مند سوشل ازم جو عوام کی آزادی کی خواہش کی پوری طرح سے عکاسی کرتا ہے۔ عوام الناس معاشرے میں ہر شے کے مالک ہوتے ہیں یہ اس لیے کہ معاشرے کی ہر چیز عوام الناس پیدا کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔