سوشل ازم سائنس ہے | پانچواں حصہ
کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان
دی بلوچستان پوسٹ
مرکزالبشر سوشل ازم جوچے آمیز سماجی تاریخی اصولوں پر مبنی ہے جس نے انسان کو مرکز بنا کر سماجی تاریخی ارتقا کے قانون کی ایک نئی سائنسی تشریح پیش کی ہے۔ وہ ہر شے انسان کی خدمت کے لیے وقف کرتا ہے اور انسان کے بارے میں جوچے آمیز تصور اور رویے پر مبنی اس کے تخلیقی کردار میں اضافہ کر کے ہر مسئلے کو حل کرتا ہے۔ ہمارا سوشل ازم انسان کی آزادی و خود مختاری کا علم بردار ہے اور اس کی پوری طرح ضمانت دیتا ہے اور دنیا کے مالک اور اس میں تبدیلی لانے والے کے طور پر انسان کی حیثیت اور کردار کو ہمیشہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے اس کے نظریاتی شعور اور تخلیقی استعداد کو بسرعت ترقی دیتا ہے اور انھیں بھرپور انداز میں کام میں لاتا ہے تاکہ انقلاب اور تعمیراتی عمل میں تیزی آئے۔
نظریہ جوچے نے بھی انسان کی زندگی کے نچوڑ اور قدورقیمت کو نئی طرح واضح اور پیش کیا۔ جب انسان کو ایک عضوی جسم تصور کیا جاتا ہے تو اس کی زندگی سے مراد ہے جسمانی زندگی،تاہم وہ ایک ایسا وجود نہیں ہے جو محض جسمانی زندگی بسر کرتا ہے۔ نظریہ جوچے نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کی نشان دہی کی کہ ایک انسان سماجی سیاسی کلیت نیز ایک جسمانی زندگی کا حامل ہوتا ہے۔جسمانی زندگی ایک انسان کی عضوی جسم کے طور پر زندگی ہوتی ہے جب کہ سماجی سیاسی کلیت بہ طور ایک سماجی وجود کے انسان کی زندگی ہوتی ہے جو بہ طور ایک سماجی وجود کے انسان کے لیے بے نظیر اور لاثانی ہوتی ہے۔
ایک انسان کے لیے جسمانی زندگی بیش قیمت ہوتی ہے۔ جسمانی کا حامل ہونے پر ہی وہ سماجی سیاسی کلیت و سا لمیت حاصل کر سکتا ہے۔ اس مفہوم میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مادی زندگی جو جسمانی زندگی کے تقاجے کو عملی جامہ پہناتی ہے وہ زندگی ہوتی ہے جو اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے۔چوں کہ انسانی ایک سماجی وجود ہوتا ہے جو خالی حیوانی وجود سے مختلف ہوتا ہے اس کی مادی زندگی کے تقاضے مستقل طور پر بڑھتے رہتے ہیں جیسے جیسے اس کی خود مختاری تخلیق کاری اور شعور میں ترقی ہوتی رہتی ہے اور معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا رہتا ہے اس کی مادی زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کی پوری طرح ضمانت فراہم کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اس کی سماجی سیاسی کلیت کو قائم رکھنے اور اسے ترقی دینے کی مادی ضمانت کا سبب بنتی ہے۔
ایک انسان کے لیے جسمانی زندگی قیمتی ہوتی ہے لیکن اس کی سماجی سیاسی کلیت زیادہ بیش قیمت ہوتی ہے۔ اپنی جسمانی زندگی کی نسبت اپنی سماجی سیاسی کلیت کی قدروقیمت کو زیادہ سمجھنا ایک سماجی وجود کے طور پر انسان کی فطری اور بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ایک آدمی صرف اپنی جسمانی زندگی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے اور اپنی سماجی سیاسی زندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے تو اس کی زندگی کبھی باوقار قرار نہیں دی جاسکتی خواہ وہ کتنا ہی آسودہ حال کیوں نہ ہو۔اس طرح کی مادی زندگی آگے چل کر ایک بد نما اور غیر متوازن زندگی بن جاتی ہے جو کسی جانور کی زندگی سے بہتر نہیں ہوتی اور جو انسان کی حقیقی فطرت کے برعکس ہوتی ہے۔
آزادی انسان کی زندگی اور روح ہے ایک آزاد سماجی وجود ہوتا ہے جو محکومی یا جکڑ بندیوں سے آزاد رہ کر آزادی سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اس حقیقیت کا کہ انسان آزادانہ زندگی گزارتا ہے یہ مطلب ہے کہ وہ دنیا اور خود اپنی تقدیر کے مالک کے طور پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اور اس حیثیت میں اپنے حقوق کو استعمال کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے۔ صرف اس صورت میں ہی جب انسان اپنی خود مختاری کو حق استعمال کرتے ہوئے اور اپنی خودمختاری کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے اور ایک سماجی وجود کے طور پر زندگی بسر کرے تب ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سماجی سیاسی کلیت برقرار رکھتے ہوئے ایک باوقار زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔اگر وہ اپنی خودمختاری سے محروم ہو جائے اور دوسروں کا محکوم بن جائے تو وہ زندہ ہونے کے باوجود سماجی اور سیاسی لحاظ سے ایک مردے سے بدتر ہوتا ہے۔آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی انسانی خواہش سب سے پہلے ایک آزاد سیاسی زندگی کے ذریعے حقیقت کا روپ دھارتی ہے، جب انسان سماجی اور سیاسی طور پر محکوم ہو تو وہ کسی قسم کی آزاد زندگی نہیں گزار سکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔