سوشل ازم سائنس ہے | ساتواں حصہ – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

138

سوشل ازم سائنس ہے | ساتواں حصہ

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

عوام الناس فطرت اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے اعلیٰ ترین تخلیقی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایک فرد کی طاقت اور بصیرت محدود ہوتی ہے لیکن عوام الناس لامحدود طاقت اور بصیرت رکھتے ہیں۔ اگر اس دنیا میں کوئی قادر مطلق اور عالم مطلق ہے تو وہ عوام الناس ہیں۔ اپنی بے اندازہ طاقت اور بصیرت کو بروئے کار لاکر عوام معاشرے میں ہر شے پیدا کرتے ہیں۔وہ تاریخ کو آگے بڑھاتے ہیں اور انقلاب کو فروغ دیتے ہیں۔

عوام الناس فطرت کو بدلتے ہیں، پیداواری قوتوں کو ترقی دیتے ہیں اور مادی دولت پیدا کرتے ہیں۔ بے شک سرمایہ دار طبقہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے پیداواری قوتوں کو ترقی دینے میں دل چسپی لیتا ہے لیکن سرمایہ دار مادی دولت کو خود اپنے ہاتھوں سے پیدا نہیں کرتے۔ عوام نظریاتی و ثقافتی دولت کو براہِ راست پیدا کرتے ہیں اور ترقی پسند مفکر لائق و فائق سائنس دان اور ادب و فنون ِ لطیفہ کے باصلاحیت افراد بہم پہنچاتے ہیں۔ استحصالی طبقہ بھی خود اپنے نظریاتی اور ثقافتی ترجمانوں کو سامنے لاتا ہے لیکن جو افکار اور ثقافت وہ پیش کرتے ہیں اس سے شائستہ سماجی زندگی اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ عوام معاشرے کو بدلتے ہیں۔ رجعت پسند استحصالی طبقہ صرف فرسودہ استحسالی نظام کو برقرار رکھنے اور اسے مستحکم کرنے میں نہ کہ سماج کو بدلنے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ حکمران بورژوائیوں کی طرف سے رچائے جانے والے ”اصلاح“ کے ڈھونگ کا مقصد خود کو سرمایہ داری کے بحران سے نکالنا ہوتا ہے۔

ترقی پسند خطوط پر سماجی تبدیلی صرف بیدار اور متحد عوام الناس عمل میں لاسکتے ہیں۔ چوں کہ معاشرے میں ہر چیز عوام کی پیدا کردہ ہوتی ہے اس لیے لامحالہ وہی ہر شے کے مالک ہوتے ہیں صرف سوشلسٹ معاشرے میں ہی جہاں ریاستی اقدار اور ذرائع پیداوار کا تعلق عوام سے ہوتا ہے عوام معاشرے کی ہر شے کے حقیقی مالک ہوسکتے ہیں۔

چون کہ عوام الناس معاشرے میں ہر چیز کے مالک ہیں لہذا انھیں مالک کی حیثیت حاصل کرنا ہو گی۔ انھیں مالک کے طور پر اپنے حقوق استعمال کرنے ہوں گے، اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کرنا ہوگا اور ایک باعزت اور خوش گوار زندگی کا لطف اُٹھانا ہو گا۔ وہ چوں کہ معاشرے میں ہر شے کے مالک ہیں اس لیے عوام الناس کو مالکوں کی حیثیت حاصل کرنا ہو گی اور اس حیثیت سے اپنے حقوق استعمال کرنا ہوں گے۔

عوام الناس کی آزادی و خود مختاری کی خواہش مالکوں کی حیثیت حاصل کرنا اور اس حیثیت سے اپنے حقوق استعمال کرنا ہے۔ آزادی عوام الناس کا خون حیات ہے اور ان کی آزادانہ حیثیت اور خودمختاری حاصل کرنے کا حق وہ بنیادی حالات ہیں جن پر ان کے مقدر کا دارومدار ہے۔ عوام الناس چوں کہ ریاست اور معاشرے کے مالک ہیں اس لیے انھیں سیاسیات، معیشت، ثقافت اور سماجی زندگی کے دیگر شعبوں میں مالکوں کی حیثیت حاصل کرنا ہوگی اور اسی حیثیت سے اپنے حقوق استعمال کرنا ہوں گے۔عوام الناس کی آزادی کی سرگرمی سے حمایت کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ کام کے تمام طریقوں اور حکمت عملیوں کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان کے ذریعے عوام کی آزادی کی خواہش مترشح ہو اور انھیں عوام کی کوششوں پر بھروسہ کر کے عملی جامہ پہنایا جائے۔

عوام الناس کی آزادی کی خواہش طریق کار اور پالیسیوں کی درستی کا جانچنے کی کسوٹی ہے، انقلاب اور تعمیر میں پیچیدگیوں اور گمراہی سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عوام میں گھل مل جائیں اور سنیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ عوام ہر بات کے اساتذہ ہیں عوام کی آزادی کی خواہش جب نظام میں مضبوط ہوگی تو افکار طریقِ کار اور حکمت عملیاں بن جائیں گی۔ محنت کش طبقے کی پارٹی کو جب اپنی حکمتِ عملی اور طریقِ کار طے کرنا ہو تو اسے ہمیشہ عوام میں جانا ہوگا اور ان کی خواہشات سے باخبر رہنا ہوگا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سرکاری اہلکاروں کو بھی عوام کی خواہشات سُننے سے کام شروع کرنا ہوگا۔ پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں بھی ہماری پارٹی بہترین سوشلسٹ نظام قائم کرنے اور اسے مسلسل ترقی دینے میں کامیاب رہی ہے، کیوں کہ اس نے عوام میں گھوم پھر کر اپنی حکمتِ عملیاں اور لائحہ عمل بنایا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اس کی حکمت عملیوں میں عوام کی آزادی کی خواہش مترشح ہوتی ہے اور ان کی کوششوں پر بھروسہ کر کے انھیں عملی جامہ پہنایا ہے۔ ہمارے ملک میں سوشل ازم کی فتح مندانہ پیش رفت کا یہی راز ہے۔ ایسی پیش رفت جو زرا سی بھی غلطی یا ناکامی کے قطعی طور پر ایک سائنسی راہ پر عمل میں آئی۔ عوام الناس کی آزادی کی حمایت کرنے اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے ہمیں مکمل طور پر اپنے ملک اور قوم کی آزادی کی حفاظت کرنا ہوگی۔

ہماری پارٹی کا مستقبل انقلابی اصول سیاست میں آزادی، معیشت میں خود کفالت اور قومی دفاع میں خود انحصاری ہے۔ ہماری پارٹی اور ہمارے عوام نے ملک اور قوم کی آزادی کو بڑی اہمیت دی ہے۔ سام راجیوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے سخت دباؤ کے باوجود انھوں نے سیاسی آزادی، اقتصادی خود کفالت قومی دفاع میں خود انحصاری کے انقلابی اصول کو پوری طرح سے عملی جامہ پہنایا ہے۔ اس طرح انھوں نے قومی خود مختاری اور وقار کا سختی سے دفاع کیا ہے اور ان کی پیش رفت جاری ہے۔ وہ ثابت قدمی سے اپنے عزم و یقین سے وابستہ ہیں اور سوشلسٹ پرچم کو سربلند کیے ہوئے ہیں۔

سامراجی دوسرے ممالک کے معاملات میں متشددانہ مداخلت کرتے ہیں اور دوسری اقوام کی خود مختاری کو پامال کرتے ہیں۔ وہ ان حرکات کو ”انسانی حقوق کا دفاع“ کے بہانے حق بہ جانب قرار دیتے ہیں۔ ملکوں اور قومون کی آزادی سے الگ انسانی حقوق کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی حقوق کی ضمانت ان لوگوں کو کبھی نہیں دی جا سکتی جو غیر ملکی طاقتوں کے زیر تسلط ہیں۔ انسانی حقوق خود مختاری کے حقوق ہیں جنھیں لوگوں نے سیاسی، اقتصادی، نظریاتی، ثقافتی اور سماجی زندگی کے دیگر شعبوں میں استعمال کرنا ہو گا۔ سامراجیوں کی طرف سے تشہیر کردہ انسانی حقوق دولت مندوں کی مراعات ہیں۔ دولت کے بل بوتے حاصل کی جانے والی مراعات سامراجی انسانی حقوق کے طور پر بے روزگار لوگوں کے کام کا حق، یتیموں کے حقوق یا بے سہارا لوگوں کا کھانے اور زندہ رہنے کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ چوں کہ سامراجی محنت کش لوگوں کو بقا کے بنیادی حقوق نہیں دیتے اور چوں کہ وہ عوام دشمن حکمت عملیوں اور نسلی اور قومی امتیاز اور نوآبادیاتی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں لہذا انھیں انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سامراجی انسانی حقوق کے انتہائی گھناؤنے دشمن ہیں۔ وہ عوام کے آزادی کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے بہانے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ہم اپنے ملک اور قوم کی خود مختاری سے انحراف کرنے کی کسی سامراجی مداخلت یا مطلق العنانی کو ہر گز برداشت نہیں کریں گے اور سختی سے اس کا دفاع کریں گے۔

عوام الناس کو معاشرے میں ہر شے کے مالک ہونے کی حیثیت سے اپنا کردار اور ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔ صرف اسی صورت میں وہ مالکان کے شایانِ شان اور حیثیت اور حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ انقلاب اور تعمیر عوام الناس کی ذمہ داریاں ہیں اور ان کی اپنی ذمہ داریاں انھیں خود اپنی کوششوں سے انقلاب اور تعمیر میں پیدا ہونے والے مسائل کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی اور انھیں حل کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔