سوشل ازم سائنس ہے | آٹھواں حصہ – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

130

سوشل ازم سائنس ہے | آٹھواں حصہ

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

معاشرے میں ہر شے کے مالک کی حیثیت سے عوام الناس کو اپنی ذمہ داری اور کردار انجام دینے کے قابل بنانے کے لیے مالکان کی حیثیت سے ان کا شعور بلند کیا جانا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے دیگر تمام ذمہ داریوں پر نظریاتی کایا پلٹ اور سیاسی کام کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ یہ سوشلسٹ معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں جہاں عوام ریاست اور معاشرے کے مالک ہوتے ہیں سماجی ترقی کی اصل قوت متحرکہ عوام الناس کا اعلیٰ انقلابی جوش و خروش اور تخلیقی اقدامات ہوتے ہیں۔ وہ عوام الناس جو آزادانہ نظریاتی شعور سے مسلح ہوتے ہیں اور جو پارٹی اور قائد کے پیچھے چٹان کی طرح متحد ہوتے ہیں۔ نظریاتی تبدیلی اور سیاسی کام کو ترجیح دے کر معاشرے کے تمام افراد کے کمیونسٹ انداز میں بدلنے اور ان کے انقلابی جذبے اور تخلیقی اقدامات میں اضافہ ہونے سے ہی وہ انقلاب اور تعمیر کو تیز کر سکتے ہیں اور سوشل ازم کے فوائد کا پوری طرح سے مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا سوشلسٹ تعمیراتی عمل میں نظریاتی تبدیلی اور سیاسی کام کو ترجیح دے کر عوام الناس کو تعلیم دینے اور ان کے انقلابی جوش و جذبہ اور تخلیقی اقدامات میں اضافہ کرنے کی کوششوں پر ہمیشہ مرکوز کیا جا نا چاہیے۔ عوام کے کردار میں اضافہ کرنے کے لیے نظریاتی تبدیلی اور سیاسی کام کی ترجیح دینے سے بڑھ کر سوشلسٹ تعمیر کو آگے بڑھانے کا کوئی تیر بہ ہدف طریقہ نہیں ہے۔ پیسے کے ذریعے انسان کو متحرک کرنے کی کوشش کرنا سوشلسٹ معاشرے کی حقیقی فطرت کی نفی کرنا ہے۔ سوشل ازم کے فوائد کا اس طریقے سے مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا سرمایہ دارانہ طریقہ عوام کو انقلابی جوش و جذبے یا تخلیقی کارروائی میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ اس سے بھی برا یہ کہ یہ خود سوشلسٹ نظام کو کمزور کر کے اسے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ نظریاتی تبدیلی اور سیاسی کام کو قطعی ترجیح دے کر ہماری پارٹی انقلاب اور تعمیر کو زبردست انداز میں آگے بڑھا سکی اور عوام کے عظیم انقلابی جوش جذبے اور تخلیقی سعی و عمل پر بھروسہ کر کے سوشل ازم کے فوائد کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کرسکی۔پارٹی اور قائد کے پیچھے سختی سے متحد عوام الناس کا اعلیٰ انقلابی جوش و جذبہ اور سعی و عمل طاقت کا ذریعہ ہے جس سے عوام پر مرکوز ہمارا سوشل ازم انتہائی سائنسی سوشل ازم کے طور پر اپنے فوائد کا پوری طرح مظاہرہ کرسکتا ہے۔

معاشرے میں ہر شے کے مالک ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو اپنی ذمہ داری اور کردار انجام دینے کے قابل بنانے کے لیے ان کی تخلیقی قوت کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر انقلاب اور تعمیر میں ہمیشہ بنیادی توجہ دی جانی چاہیے۔ چوں کہ عوام الناس معاشرے میں ہر شے پیدا کرتے ہیں اس لیے انقلاب اور تعمیر میں کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ انہیں کس طرح تربیت دے کے طاقتور بنایا جائے۔ انہیں تربیت دے کر طاقتور بنانے کا مطلب ان کے آزادانہ شعور کے ساتھ ان کی تخلیقی استعداد کو ترقی دینا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں آزاد اور تخلیقی وجود کے طور پرعوام الناس کا لامحدود ترقی کرنے کا تقاضا صحیح طرح سے پورا نہیں کیا جا سکتا، سامراجیوں اور سرمایہ داروں کو غلاموں کی ضرورت ہوتی ہے جو فاضل قدر پیدا کرتے ہیں اور ان کی تابعداری کرتے ہوں اور جنھیں بہت سے طریقوں سے ترقی دی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محنت کش لوگوں کی حیثیت ختم کر کے انھیں سرمائے کا غلام بنانے اور ان کو نظریاتی طور پر کم زور کرنے اور ان کی استعداد کو مسخ کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ عوام الناس کا ترقی کر کے آزاد اور تخلیقی وجود بننے کا تقاضا صرف سوشلسٹ معاشرے میں ہی مکمل طور پر پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہماری پارٹی نے ایک انتہائی اعلیٰ ترین سوشلسٹ تعلیمی نظام قائم کیا ہے۔ ایک ایسا نظام جس کے تحت ساری آبادی پڑھتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے خرچ پر وہ اسے چلا رہی ہے اور اس طرح سے معاشرے کے تمام افراد کوسوشل ازم و کمیون ازم کے قابل معماروں کے طور پر پروان چڑھانے کا فریضہ شان دار طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام حد سے زیادہ مشکل صورت میں بھی سوشلسٹ تعمیراتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ ہر اس مسئلے کو خود انحصاری کے پرچم تلے خود اپنی کوششوں اور بصیرت کے ذریعے حل کر رہے ہیں۔

عوام الناس کو معاشرے کی ہر شے کے مالک ہونے کے ناطے ایک قابل قدر اور خوش گوار زندگی بسر کرنی ہوگی۔ مادی زندگی کو انی کی قابل قدر اور خوش گوار زندگی میں ایک مقام حاصل ہے۔ یہ سماجی زندگی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے سوشلسٹ معاشرے میں مالک ہونے کی بنا پر عوام الناس کو ایک آسودہ حال اور مہذب زندگی گزارنی چاہیے۔ اقتصادی تعمیر کو بڑھاوا دے کر ہماری پارٹی نے سوشلسٹ اقتصادی نظام کو مستحکم کیا ہے اور اسے ترقی دی ہے اور ایک طاقتور سوشلسٹ اور آزاد قومی معیشت تعمیر کی ہے۔ اس نے اس طرح سے ہماری اپنی کوششوں کے ذریعے عوام کی مادی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں ڈالی ہیں۔ ہم نے اپنے ذرائع و وسائل اور حوصلے سے جو آزاد قومی معیشت تعمیر کی ہے اس کے امکانات بے شمار ہیں ہر ایک کو ایک اخلاقی اور مضبوط مادی زندگی فراہم کرنے کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ملک کی اقتصادی قوت کو مزید مضبوط بنانے اور سوشلسٹ تقاضوں کے مطابق لوگوں کی مادی زندگی کا معیار مستقلاََ بہتر بنانے کے لیے ہمیں سوشلسٹ معیشت کی تعمیر کے سلسلے میں لگاتار زبردست کوششیں صرف کرنا ہوں گی۔

عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عمدہ اور خوش گوار زندگی باوقار انداز سے گزاریں۔ اس کے ساتھ وہ سماجی سیاسی کلیت کی شان میں اضافہ کرتے رہیں اور سماجی برداری کی محبت اور اعتماد سے محفوظ ہوتے رہیں۔ قدرتی طور پر لوگوں کو اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ استحصالی معاشرے میں ممکن نہیں ہے۔ انسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال اور ظلم و ستم لوگوں سے محبت اور ان کے اعتماد سے میل نہیں کھاتا۔ استحصالی اور استحصال زدہ کے درمیان حقیقی محبت اور اعتماد قائم نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں انسان کی ذاتی قدر، قدرِ مبادلہ میں بدل گئی ہے اور پیسے اور دولت کے ذریعے اس کا مول تول ہوتا ہے۔ یہاں پر عوام سے محبت اور ان کے اعتماد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بورژوائی رجعت پسندوں کے طبقات سے بلا محبت کے دعوے سرمایہ دارانہ استحصالی معاشرے کی رجعت پسندانہ فطرت پر پردہ ڈالنے اور طبقات کے درمیان تضادات کو نرم کرنے کے فریبی فعل ہیں۔ محنت کش طبقے کی پیش رو تھیوری نے بورژوائی رجعت پسندوں کی نام نہاد طبقات سے بالا مکر آمیز محبت کے رجعت پسندانہ فطرت کو ننگا کر دیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ طبقاتی معاشرے میں محبت بھی طبقاتی کردار اختیار کر لیتی ہے۔ اس حقیقت کا کہ محبت طبقاتی کردار اختیار کر لیتی ہے یہ مطلب نہیں کہ محبت اور اعتماد کا تبادلہ صرف ایک ہی جیسی سماجی و طبقاتی حیثیت کے لوگوں کے درمیان ہو سکتا ہے۔ لوگوں کے درمیان محبت اور اعتماد کا رشتہ ان کے درمیان بھی قائم ہو سکتا ہے جو اپنی سماجی اور طبقاتی حیثیت میں فرق کے باوجود عوام الناس کی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے مل کر جدوجہد کرتے ہیں اور جو باہم مل کر تخلیقی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔