سندھی قوم کو کرد قوم کی حمایت کیوں کرنی چاہیے؟ – ملھار سندھی

567

سندھی قوم کو کرد قوم کی حمایت کیوں کرنی چاہئے؟
مشترکہ مفادات اور اسباب

تحریر: ملھار سندھی

دی بلوچستان پوسٹ

سندھی قوم کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ یہ وہ ہی ’داعش‘ ہے جس نے سندھ کے سہون شہر میں ۲۰۱۷ ء میں قلندر لعل شہباز کی مزار پر ایک خودکش دھماکے میں ۳۰۰ سے زائد سندھیوں کا قتل عام کیا تھا اور سندھ کے کراچی، حیدرآباد اور شکارپور اضلاع میں لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اور حفیظ بروہی گروپ کی مدد اور نگرانی میں اپنا نیٹ ورک بچھایا ہوا تھا۔ جس کے ذریعے داعش سندھ کو جہنم بنا دینا چاہتی تھی۔

اسی ہی ’داعش‘ کی خلافت کو عراق اور شام کے کوبانی، موصل،راکہ اورکامشیلہ کے شہروں اور پہاڑوں میں جنہوں نے خونی جنگ کرکے زبردست شکست دی، وہ کوئی اورنہیں بلکہ کردستان کی آزادی کے لیئے لڑنے والے وہ ہی کرد فریڈم فائٹرز ہیں، جن کے اوپر آج ترکی کی اردگان حکومت جنگی جہازوں سے بم برسا رہی ہے۔ یہ وہ ہی کرد قوم ہے جس کی سرزمین سلطنت عثمانیہ کے دور سے ترکی، شام،عراق،ایران اور آرمینیا سمیت پانچ ممالک کے جاگرافیائی حدود کے اندرمقبوضہ بنی ہوئی ہے۔ جس اپنے تاریخی وطن کی آزادی کے لیئے کرد قوم مختلف قبضہ آور قوتوں سے گذشتہ دو سؤ سالوں سے لڑتی آ رہی ہے۔

’داعش‘ عربی زبان کے چار لفظوں ’دولت اسلامیہ عراق و شام ‘ کا مخفف ہے۔ داعش کا بنیاد ۱۹۹۹ء میں ’جماعت توحید ا ولجہاد‘ کے نام سے پڑا او ر ۲۰۰۴ ء میں اس نے القاعدہ کے ساتھ الحاق کیا اور ۲۰۱۴ ء میں یہ القاعدہ سے الگ ہوکر عراق اور شام میں اپنی خلافت بنانے کا اعلان کیا۔ اور خلافت کے اعلان والے اسی ہی سال میں داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کرکے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا اور عراق کے سنجر شہر کی ہزاروں یزیدی قبیلے کی عورتوں کو اغوا کرکے ریپ کیا اور ان کو اپنا ’سیکس سلیو ‘ بناکر رکھا۔ شام میں اسد حکومت کی کمزوری اور بغاوت ،خانہ جنگی اور عراق کی تیل کے علاقوں پرداعش کے مسلسل بڑھتے ہوئے حملوں اور قبضوں کی وجہ سے امریکا نے ۲۰۱۴ ء میں اپنے اتحادی لڑاکا کرد ملیشیا کی مدد سے پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائے پی جی) اور شام میں ’سیرین ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے نام سے ا پنے اسٹریٹیجک الائنسز بنائے اور دوسری جانب عراق میں ’داعش‘ کے ٹھکانوں پر ایئر اسٹرائیک بھی کی۔ تیل کے ذخائر سے بھرے ہوئے اس خطے میں آمریکا کے بڑھتے ہوئی کردار کو دیکھتے ہوئے شام کی کمزور بشارالاسدحکومت کوبچانے اور پشت پناہی کرنے کے لیئے روس اور ترکی بھی میدان میں اتر آئے۔

داعش نے زیادہ تر تیل سے بھرے ہوئے علاقوں پر قبضے کیئے ہوئے تھے۔ اس طرح ایک معاشی اور ہتھیاروں کی سپلائی لائین بنانے کی وجہ سے داعش نہ صرف علاقائی پر عالمی انتہاپسند اور دہشتگرد خطرہ بن گئی۔

داعش کی شروعات تو عراق اور شام کی خلافت بنانے کے اعلان سے ہوئی تھی لیکن آگے چل کر جب دنیا کی درجنوں انتہاپسند اورمذہبی دہشتگرد تنظیموں نے دنیا کے ہر کونے سے داعش سے رابطے کرکے ان سے الحاق کرنا اور شامل ہونا شروع کردیا تو داعش نے پھر عراق اور شام سے نکل کر پوری دنیا میں اپنی خلافت بنانے اور دنیا کے ہر خطے اور علاقے کے لیئے اپنی خلافت کی توسیع کے لیئے اپنے نائب مقرر کرنے اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اپنا نیٹ ورک بنانے اور حملے کرنے شروع کردیئے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے داعش مشرق وسطہ سمیت ایشیا کے دیگر علائقوں خراسان (افغانستان)، ایران، جنوبی ایشیا میں سندھ، ھند، بلوچستان، آفریکا کے مغربی علاقوں، صومالیہ ، وسط افریقا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں اپنے ’خلافت کے صوبوں‘ کا نام دے کر نیٹ ورک بنا لیا۔ دنیا کے ان سارے ملکوں میں داعش کی توسیعی پالیسی مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگرد حملوں کے ذریعے ہی اپنی خلافت قائم کرنے کی رہی ہے۔

دنیا کے بیس سے زائد ملکوں میں سینکڑوں کی تعداد میں دہشتگرد حملوں کے ذریعے داعش نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا اور ہزاروں عورتوں کا ریپ کرکے ان کو اپنا ’سیکس سلیو‘بنایا اوراپنے نیٹ ورک میں شامل درجنوں مذہبی دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے اپنے ’داعشی خلافت کے صوبوں‘ کے علاقوں میں مذہبی دہشتگروں کا ایک بڑانیٹ ورک بچھادیا۔

جاگرافیائی طورپر جنوبی ایشیا میں ہونے کی وجہ سے سندھ میں داعش کے برصغیر کا ایک بڑا نیٹ ورک بنا دیا گیا تھا، جس میں سندھ میں پہلے سے ہی موجود لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور دیگر درجنوں مذہبی دہشگرد تنظیموں اور مدارس کا نیٹ ورک داعش کے ساتھ الحاق کرکے کام کر رہا ہے۔ ان ساری مذہبی دہشگرد تنظیموں اور کراچی، حیدرٓباد اور تھرپارکر سمیت پوری سندھ میں ان کے ہزاروں مدارس اور مراکز کا نیٹ ورک پاکستانی ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی نگرانی میں پہلے سے ہی بنا کر رکھا تھا، اب وہ سب داعش ہوگئے ہیں۔

گذشتہ ستر سالوں سے پاکستانی ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسی مذہبی انتہاپسند دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورکس کو بنانا اور ان کو پال کر پوری دنیا میں دہشگردی پھیلانا رہی ہے، جبکہ سندھ ہزاروں سالوں سے اپنا ایک الگ امن پسند اور سیکیولر وطن کا تعارف رکھتی ہے۔ پاکستان ایک مصنوعی ریاست ہے جس کا ۱۹۴۷ء سے سندھ وطن کی سرزمین کے اوپر پنجابی فوج کے ہتھیارں زور پر قبضہ ہے۔ اس لیئے سندھ وطن کا پاکستان کی مذہبی انتہاپسند اور دہشتگردانہ خارجہ پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت جب ترکی کا طیب اردگان مظلوم کردقوم کے اوپر بم برسا رہا ہے تو پاکستان نے طیب اردگان کی اس عمل کی حمایت کی ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا میں ’کشمیر کے مسلمانوں کے اوپر انڈیا کے ظلم‘ کا ڈھنڈورا پیٹتا پھر رہا ہے، جبکہ کرد مسلمانوں کے اوپر بمبارمینٹ کی حمایت کر رہا ہے۔

سندھی اور کرد قوم ایک ہی مختلف قبضہ آور قوتوں کے فوجی طاقت کے نیچے غلام بنی ہوئی ہیں اور اپنی اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں، اس لیئے دونوں قوموں کا سب سے پہلا اور عالمی انسانی رشتہ ایک مشرکہ مظلوم قوم کا ہے۔سندھی قوم اپنی تاریخی تناظر اور ثقافتی لحاظ سے ایک امن پسند اور سیکیولر قوم ہے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خلاف اپنی امن پسند اور آزادی کی جدوجہد کرنے میں پرعزم ہے اور اپنے تاریخی سیکیولر اور امن پسند صوفی پیغام کے ذریعے ساری دنیا میں ایک پائدار امن اورسلامتی کا مشن رکھتی ہے۔ داعش جیسی دہشتگردقوتوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے اور اپنی سرزمین سمیت ساری دنیا کو مذہبی دہشتگردی سے محفوظ رکھنے کا مفاد بھی کرد قوم سے مشترکہ ہے۔ دنیا کے ریسرچ جرنلسٹس اپنی تازہ رپورٹس میں انتباہ کرتے آ رہے ہیں کہ دنیا سے داعش کے نیٹ ورکس کی موجودگی کا خطرہ ابھی ٹلہ نہیں ہے۔ سندھ کی ایک بڑی یونیورسٹی مہران انجنیرنگ اینڈ ٹیکنالجی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جاوید لاڑک نے ا ’سعودی ایران جنگ‘ کے موضوع پر ایک تازہ ریسرچ میں لکھاہے کہ
’پاکستان کے مغربی علائقوں خصوصا بلوچستا ن میں لشکر جھنگوی اور دیگر مذہبی انتہاپسند دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورک موجود ہیں جوکہ اب داعش بن چکے ہیں، افغانستان سے آمریکی انخلاء کے بعد قوی امکان موجود ہے، مستقبل قریب میں داعش اور دنیا کی دیگر پراکسی جنگوں کا مرکز بلوچستان بننے جا رہا ہے۔

اس تناظر میں خطے میں آمریکی مفادات کی اپنی نوعیت ہے، کیونکہ کرد فورسز آمریکا کے مضبوط اتحادی تھے اور کرد فورسز کی مدد کے بغیر آمریکا کبھی بھی خطے میں داعش کو اتنا جلدی شکست نہیں دے پاتا،لیکن داعش کو شکست کے بعد آج آمریکا ترکی سے اپنے مفادات کے بنا پر انہی کردوں کو ترکی کے بمبار جہازوں کے نیچے مرنے کے لیئے اکیلا چھوڑ گیا ہے، جس کرد قوم کی بارہ ہزار نوجوان لڑاکا عورتوں اور مردوں کی اس جنگ میں شہادت ہوئی ہے۔ آمریکی مفادات کے تقاضے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، جن حوالے سے تازہ ہے ایک بلوچ رائیٹر سلام صابر نے اپنے تجزئے میں لکھا کہ
’کرد جیسی اتحادی فورس سے اس روئیے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا ایک اعتبار لائق اتحادی نہیں رہا۔‘

بقول پروفیسر جاوید کے کہ کل داعش اور دیگر عالمی قوتوں کے جنگ کا میدان کل اگر بلوچستان بننے جا رہا ہے تواس حوالے سے کرد قوم جیسی جدوجہد کرنے والی دیگر ساری قوموں کو آمریکہ کے اتحاد ات اور ور بدلتے مفادات کے تجربوں اور مشاہدوں کو اپنی نظر میں رکھتے ہوئے اپنی اسٹریٹجی کو بہت سوچ سمجھ کر اپنے بساط پر اپنی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔
کل اگر داعش یا دوسری انتہاپسند نیٹ ورکس اور عالمی پراکسی وار کا میدان بلوچستان کی سرزمین بنتا ہے تو یہ آگ صرف یہاں پر نہیں رکے گی پر اس کا تاوء بلوچستان کی سرزمین سے آگے نکل کر ’سندھ اور ہند‘ تک پھیل سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔