دوست واقعی بلوچ تہذیب یافتہ ہیں – امبر بلوچ

392

دوست واقعی بلوچ تہذیب یافتہ ہیں

تحریر: امبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جس نے سیدھی راہ دکھائی میں اسے اپنا دشمن سمجھ بیٹھی، اس کے متعلق دل ہی دل میں، ڈگری یافتہ جاہل، تعصب پسند، حاسد، کینہ پرور، نکھٹو، نا سمجھ، چھٹی حس سے عاری نہ جانے کیا کیا بکواس کرکے اپنے آپ کو دانا سمجھ بیٹھی تھی۔ اصل میں وہی مہان تھی اور میں ہی ان نیچ باتوں کی حقدار۔

میرے دوست اب آپ جہاں بھی ہو جیسے بھی ہو مجھے معاف کرنا، کیونکہ اصل میں یہ سب القابات جو آپ کیلے میرے ناسمجھی بچپنا کی وجہ سے دل میں جگہ کر گئے تھے ان کا حقدار تو میں ہی ہوں۔ جامعہ کے متعلق جب میں نے ٹھیک چار سال بعد طلباء کی پریس کانفرنس کی خبر پڑھی۔

”جامعہ بلوچستان کے باتھ رومز میں سی سی ٹی ویڈیوز کے ذریعے طالبات کو بلیک میل کرنے کے دل دہلادینے کے واقعات میں وی سی کے قریبی اور من پسند افراد اسٹاف آفیسر،یونیورسٹی سیکورٹی برانچ کے آفیسران(جن کا تعلق آرمی سے ہے)،اہلکاروں (ریگولر آرمی اور ایف سی)،سیکورٹی سرویلنس آفیسر سمیت درجنوں دیگر آفیسران اور ملازمین ملوث ہیں۔ جس کی براہ راست ذمہ داری وی سی پر عائد ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ وی سی نے یوبین نامی خفیہ تنظیم قائم کی ہے۔ جس کا سربراہ وی سی کے بدنام زمانہ پی ایس ہیں۔ وی سی کے پی ایس کی جانب سے طلباء و طالبات کو بلیک میل کرنے کے واقعات سے ساری یونیورسٹی آگاہ ہے۔ درجنوں طالبات اور فیمیل ملازمین کو بلیک میل کیا گیا ہے، خاص کر اس اہم کام میں وی سی کا چہیتا اور خاص سیکورٹی سرویلنس آفیسر ملوث ہیں۔

یونیورسٹی کے سیکورٹی کیمروں اور سی سی ٹی وی کیمروں کے کنٹرول رومز بلیک میلنگ کا اہم مرکز ہیں،جو وی سی کی آشیر باد کے بغیر ناممکن ہے۔“

جامعہ بلوچستان میں یہ اور ان سے جڑی دسیوں سیاہ کارنامے قابض فوج کی سلیکٹڈ وی سی اور پرووائس چانسلر سمیت خفیہ اداروں کے اہلکارسرانجام دیکر خواتین کے ساتھ کھلواڑ کرتے چلے آرہے ہیں۔

دوست مجھے گذشتہ چار سال کی بات اب بھی یاد ہے جب میں نے کہا تھا کہ آپ ایک منٹ رکیں میں واش روم ہوکر آتی ہوں، تو آپ نے کہا تھا کہ”کیا آپ بیمار ہیں؟اگر نہیں تو یہاں غلطی سے بھی مت جائیں اگربیمار پڑیں تو اس دن جامعہ مت آنا کیونکہ علم عزت کے بغیر کسی کام کا نہیں رہتا۔“

مگر میں نے انجانے میں آپ سے الٹی پھلٹی بحث کرکے ثبوت مانگا، تو آپ نے بتایا کہ”ثبوت یہی ہے جامعہ کے اندر بغیر قابض پنجابی کے آپ کو بلوچ یا پشتون آٹے میں نمک کے برابر اگر نظر آتی ہیں تو ٹھیک ورنہ یہی سمجھ لو ہم یہاں نہیں لاہور اور اس کے بدنام زمانہ ھیرامنڈی ہی میں موجودہیں۔ کیونکہ یہاں قابض اشرافیہ پنجابی کو ہماری نہ روایات سے واقفیت ہے نہ رسم ورواج اور تہذیب اور معاشرے کے اقدار و اونچ سے۔ حتی کہ یہ بدبخت اب تک ہماری زبان اور قوم کے تلفظ سے بھی بیگانے ہیں مثلاََ ان کی پی ایچ ڈی ہی بھلے کیوں نہ ہو وہ بھی، قوم کی جگہ”بلوچ“ بجائے بلوچی،بولتے ہیں ہماری دوسری بڑی قومی زبان براہوئی کوزبان کے بجائے الگ قوم تصور کرتے ہیں، حالانکہ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو قوم ”بلوچ“ ہے اور اس کے دوبڑی زبانیں بلوچی اور براہوی کہلاتے ہیں۔پنجابی کی شومئی قسمت دیکھیں یہاں ہزاروں سالوں سے رہنے والے دوسرے مذاہب یا زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہندو اورکرسچن اپنے آپ کو بلوچ یا پشتون ہی تصور کرتے ہیں،اور ہندی یا اور دوسرے زبانوں کو اپنا مادری زبان۔ مگر قابض پنجابی ریاست ہماری سرزمین پر بہتر سالوں سے قبضہ کرکے ہمارے وسائل بے دردی سے لوٹ رہا ہے (مگر تمام بلوچ روایات سے بے خبر ہے) بدلے میں ہمارے پیاروں کی مسخ لاشیں،اور زندہ مردہ انسانی ڈھانچے ہی پھینک کر بھاگ جاتاہے۔ حالانکہ ہماری بلوچ کی روایت ہے بے شک جنگ دوران ایک لاکھ افراد ہی ہلاک کیوں نہ کئے گئے ہوں، اگر اس دوران محلے سے ایک خاتون بھی نکل کر دوپٹہ دکھائے تو خون فوراََ دونوں جانب سے رک جاتاہے۔مگر وحشی پنجابی فوج ہماری خواتین کے دوپٹہ دکھانے یا اس کے قدر سے کوسوں دور ہے۔اگر اس دوران خاتون گھر سے نکلے تووہ بلوچ قومی روایات بوٹوں تلے روند کر انھیں گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جاکر انکی عصمتیں تار تار کرتی ہے۔ اور ان درندوں کوایک پل کیلے بھی احساس نہیں ہوتا کہ بلوچ روایات میں کسی خاتون کو اٹھاکر لے جانا کتنا بھیانک فعل سمجھا جاتاہے کوئی لاکھ دشمنی باوجود تصور ر نہیں کرسکتا کہ میں دشمن کے خواتین اٹھاوں یا دشمن کے گھر جلاوں؟حتیٰ کہ کوئی بھی غیرت مند بلوچ گھر جلانے کو تصور میں بھی نہیں لاسکتا۔

یہ وحشی درندہ بدتہذیب فوج بے باکی سے بلوچ کے گھروں کو مسمار کرکے جلا دیتی ہے۔ مجال ہے حیوان کی طرح انھیں دوسرے کا درد محسوس ہو تو اس اینگل سے دیکھیں ہماری اور انکے درمیاں کتنی بڑی خلاء ہے۔؟ ہاں فل الوقت وہ قابض ہے جتنا ہوسکے غلام رکھنے کیلئے اپنے ناکام و نامراد وحشی حربے استعمال کرے ۔جب بھی وقت نے پلٹا کھایا وہ سڑک اور روڈ بجائے جنگلوں اور بیابانوں کا استعمال کرکے بھاگنے کی کوشش کریں گے یا بنگلہ دیش کی طرح فوج کھیتوں زریعے دم دباکر چھپ چھپ کرجان بچانے کی کوشش کریں گے۔بس یہی میری دلیل
یا ثبوت ہے ہاں یہ بات بھی وقت بتائے گی کہ ہم نے وحشی قابض پنجابیوں کی ناپاک وجود اورموجودگی میں جامعہ کے واش روم استعمال کرکے ٹھیک کیا یا خراب؟اللہ حافظ“،۔

ان باتوں کے بعد آپ چلی گئیں اور وقت نے ثابت کردیا کہ آپ دانا تھیں اور میں نادان تاہم اب بھی میں آپ کے بات کے دوسرے حصے کیلے پر امید ہوں کہ یہاں سے وحشی پنجابی فوج امید ہے اپنے پاوں پر سالم نہیں بھاگ سکے گا کیونکہ وہ قابض ہے اور انھوں نے قدم قدم پر بلوچ پر وحشت کی ہے،لہذا وہ بہتر سالوں کا حساب سود سمیت اداکرکے لوٹیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔