دنیا میں 70 کروڑ بچوں میں سے ایک تہائی غذائی قلت کے شکار ہیں – یونیسیف

257

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے 70 کروڑ بچوں میں سے پانچ سال سے کم عمر کے ایک تہائی بچے یا تو غذائی قلت کا شکار ہیں یا پھر ان کا وزن ضرورت سے زیادہ ہے جس کے سبب وہ طویل عرصے تک صحت کے مسائل سے دو چار رہتے ہیں۔

یونیسیف کی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن کے نام سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ صورت حال نہایت سنگین ہے۔

یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریٹا فور نے اس رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ اچھی غذا یا خوراک سے محروم بچے کبھی صحت مند نہیں رہ سکتے۔ ہم صحت مند خوراک کی جنگ میں میدان ہارتے جارہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے مسائل بدل چکے ہیں۔ 1990 سے 2015 تک غریب ملکوں میں چار سال یا اس سے کم عمر کے تقریباً 15 کروڑ بچے اپنی طبعی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دماغی اور جسمانی بیماریوں میں گِھر جاتے ہیں۔

یونیسیف کے مطابق یہ ایک اور پریشان کن اور دیرینہ مسئلہ ہے کہ دنیا کے پانچ سال سے کم عمر کے نصف بچوں کو ضروری وٹامنز، منرلز یا معدنیات دستیاب نہیں ہیں۔ ادارے کے مطابق یہ ایک طرح کی ان دیکھی بھوک ہے۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے 30 برسوں میں بچوں میں غذائیت کی ایک اور شکل ترقی پذیر ملکوں میں بچوں کا زائد الوزن ہونا ہے۔

یونیسف کے غذائی پروگرام کے سربراہ وکٹر اگوآیو نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ غذائی قلت، وٹامنز اور معدنیات کی کمی اور موٹاپا ایک طرح سے تین گنا بوجھ ہے اور یہ بوجھ ایک ہی ملک، ایک ہی پڑوس اور اکثر ایک ہی گھر میں پایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک خاتون جس کا اپنا وزن زیادہ ہو یا وہ موٹاپے کا شکار ہو اس کے بچے ضائع ہونے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مختلف عمر کے آٹھ کروڑ سے زائد بچے مستقل طور پر بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ دو کروڑ افراد کو صحت مند غذا دستیاب ہی نہیں۔ وہ موٹاپے، دل اور ذیابیطس کے امراض میں مبتلا ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر بچوں میں پیدائش کے فوری بعد سے ساڑھے تین سال تک کی عمر تک غذا جسمانی صحت اور ذہنی نشونما کی اساس ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود چھ ماہ سے کم عمر کے صرف پانچ میں سے دو بچوں کو مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دودھ سے بنی اشیا کے استعمال میں 40 فی صد تک اضافہ ہوگیا ہے جبکہ درمیانی آمدنی والے ممالک مثلاً برازیل، چین اور ترکی میں یہ تعداد تین تہائی ہوگئی ہے۔

وٹامنز اور معدنیات کی کمی سے قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے جس کے سبب جسم بیماریوں سے لڑنے کی طاقت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ نظر کمزور ہوجاتی ہے اور قوت سماعت نقائص کا شکار ہوجاتی ہے۔ آئرن کی کمی سے خون کم بننے لگتا ہے جبکہ ذہانت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔

رپورٹ کے چیف ایڈیٹر برائن کیلی نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ یہ ایسے امراض ہیں جو فوری طور پر واضح نہیں ہوتے لیکن جب بھی سامنے آتے ہیں وہ کم خطرناک ثابت نہیں ہوتے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والے تین چوتھائی ملکوں میں پانچ سال سے کم عمر کے کم سے کم 10 فی صد بچے یا تو زائد الوزن ہیں یا موپاپے کا شکار ہیں۔

رپورٹ کے چیف ایڈیٹر برائن کیلی کے مطابق اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے موٹاپا سے جڑے مسائل پر توجہ دی جانی چاہیے۔ جب تک اس سے بچاؤ کے طریقے سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا نہیں ہوجاتی، موٹاپے کا جن بے قابو ہی رہے گی۔

اُن کے بقول، جنک فوڈ بچوں کے زائد الوزن کے مسئلے کو مزید خراب کررہے ہیں۔ بچے انجانے میں اپنی ضرورت سے زیادہ نمک، چینی اور چکنائی کھا رہے ہیں۔ جس سے موٹاپے کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔