والدہ ذاکر مجید نے کہا ہے کہ ذاکر مجید بلوچ کو ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 8 جون 2009 کو دو گواؤں کے ساتھ مستونگ جنگل کراس پڑنگ آباد سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہکاروں نے ماورائے عدالت و قانون اٹھاکر لے گئے، گواؤں کو تھوڑی دور لیجاکر چھوڑ دیا گیا لیکن آج ذاکر مجید بلوچ کو پورے دس سال کا مکمل عرصہ مکمل ہوچکا ہے کہ وہ کال کوٹھڑیوں میں بند گمشدگی کی زندگی گزار رہا ہے جبکہ باہر اس کے اہلخانہ کُرب میں مبتلا ہے۔
ذاکر مجید کی بیمار ماں کا کہنا ہے کہ میں ایک ماں کی حیثیت سے انسانی حقوق کے اداروں اور ریاستی اہلکاروں سے سوال کرتی ہوں کہ ان کے والدین زندہ ہیں؟ اور ان کے والدین سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ کے بے گناہ جوان بیٹوں کو اٹھاکر لیجایا جائے اور دس سالوں تک آپ کو اس کے بارے کچھ بھی پتہ نہ چلے تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی، کیا یہ صدمہ آپ لوگ برداشت کرپاؤ گے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس دن سے میرے بیٹے کو فورسز اہلکاروں نے اٹھاکر لاپتہ کیا ہے ہم اپیل پہ اپیل کررہے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان، قائم کردہ کمیشنوں سے ذاکر مجید کے رہائی کے حوالے بارہا اپیل کرچکے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے، آپ اپنے ملک کے قوانین کو خود روند رہے ہو دنیا کی کوئی بھی قانون کسی شخص کو لاپتہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتی ہے تو پھر کس بنیاد پر میرے بیٹے کو دس سالوں لاپتہ رکھا گیا ہے۔
والدہ ذاکر مجید کا کہنا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا، نوجوانوں کی سیاسی رہنمائی اگر جرم ہے تو میرا بیٹا مجرم ہے لیکن اسے کسی عدالت میں پیش کرکے میرے اور ساری دنیا کے سامنے سزا سنائی جائے لیکن ہماری آواز کو سننے کے بجائے بلوچ قوم کو مزید ظلم و بربریت کی جانب دکھیلا جارہا ہے۔ پاکستانی ادارے اپنے آہین اور قانون کی خود توہین کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے ہمیں یقین دہانی کی تھی کہ وہ ذاکر مجید بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرینگے لیکن وہ اپنے دورانیے میں ناکام رہے جبکہ میں اس امید پر زندہ ہوں کہ میرا بیٹا آج نہیں تو کل ضرور آئیگا، میں اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ذاکر مجید بلوچ کی بازیابی کے لیے ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالیں۔
خیال رہے ذاکر مجید بلوچ گذشتہ دس سالوں سے جبری طور پر لاپتہ ہے وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے مرکزی وائس چیئرمین تھے جب انہیں لاپتہ کیا گیا۔
ذاکر مجید بلوچ کی ہمشیرہ فرزانہ مجید نے ان کی بازیابی کے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ میں حصہ لیا تھا۔