خطے میں بدلتے عالمی مفادات و کردارکا جائزہ – ملھار سندھی

356

خطے میں بدلتے عالمی مفادات و کردارکا جائزہ

تحریر: ملھار سندھی
( ڈپارٹمینٹ آف انٹرنیشنل رلیشنز، سندھ یونیورسٹی، جامشورو، سندھ)

دی بلوچستان پوسٹ

آج پورے خطے میں جو عالمی قوتوں کے بدلتے کردار اور مفادات کی نئی صف بندی نظر آ رہی ہے یہ کوئی اچانک رونما ہونے والی تبدیلی نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لیکر وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا تک ’بدلتے امریکی کردار‘ (US Withdrawals) اور ان کی جگہ دوسری علاقائی اور عالمی قوتوں کی صف بندی کے پورے ’پاورشفٹ‘ (Power Shift)کے پیچھے خود امریکا اور دوسری محرک قوتوں کے عملی کردار کو جولائی ۲۰۱۷ سے عمل میں آنے والی امریکا کی ’نئی افغان پالیسی‘ (New afghan Policy)کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سرد جنگ کے بعد عالمی جنگی قوتوں کے مابین جنگی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ جنگ عظیم اول اور دوئم کی جنگی صفبندی کی طرح ان کی تباہی کے نتائج کی صورت میں کبھی بھی کوئی عالمی قوت کسی دوسری عالمی سطح کی قوت سے روبرو ’مکمل جنگ‘ (Total War)کے پراسز میں جانے کی جنگی حکمت عملی کو اختیار نہیں کیا، جبکہ سرد جنگ کو بھی ایک لحاظ سے سوویت روس کے خلاف امریکن بلاک کی ٹوٹل وار اس لیئے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس جنگ کی امریکی حکمت عملی کا بڑا حصہ افغانستان میں لڑی گئی ’پراکسی وار‘ پر مشتمل تھا، حالانکہ سرد جنگ کے پورے دورانیئے میں دنیا دوعالمی بلاکوں کے ’بائی پولر‘ صفبندی میں بٹی ہوئی تھی۔

سوویت یونین کے مندہم ہونے، اقوام متحدہ کی قانون سازی،عالمی معاہدوں اور نیو ورلڈ آرڈر کے بعد عالمی قوتوں کے مفادات کے تناظر میں نئی سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک صفبندی ہونا شروع ہوگئی۔ اس نئی اسٹریٹجی میں ماضی کی جنگی حکمت عملیوں کی طرح دنیا میں جغرافیائی اور سیاسی کالونیائیزیشن کے پھیلاو (Policy of Expansion)کے بجائے تیل اور گیس کے ذخائر سے بھرپور علاقوں، قدرتی وسائل، سپلائی لائین اور ٹریڈ روٹس کے معاشی اور اسٹریٹجک پوائنٹس پر کنٹرول قائم کرنے کی اسٹریٹجی اختیار کی گئی۔ اسی تناظر میں مڈل ایسٹ اور وسط ایشیا میں ذخائر سے بھرپور علاقوں میں بیٹھنے کے لیئے امریکن اسٹریٹجی خطے کے اندرونی تنازعات کو ابھارنا اور دیگر مقامی قوتوں سے مل کر لڑنے اور ’اسٹریٹجک کنٹرول‘ حاصل کرنے کی رہتی آئی ہے۔

نیو ورلڈ آرڈر کے بعد دنیا کا کوئی بھی ویٹوپاور یا کوئی بھی عالمی قوت کسی دوسری عالمی قوت کے خلاف ’ٹوٹل وار‘ کی جنگی حکمت عملی اس لیئے بھی اختیار نہیں کررہی، کیونکہ ایک ہی وقت پر ان ہی ملکوں کی آپس میں کچھ مفادات کے مسئلے پر ایک طرف پراکسی و معاشی جنگ بھی چل رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب ان ہی عالمی قوتوں اور دیگر ملکوں کے آپس میں بہت سارے سیاسی مسائل، علاقائی مفادات، ٹریڈ ایگریمینٹس اور الگ الگ معاشی و سرمائےکاری کے مفادات پر معاہدے بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ جس کا واضح مثال ’چین اور امریکہ کی ایک طرف معاشی جنگ اور دوسری جانب مشترکہ کاروباری مفادات اور ‘ٹریڈ ایگریمینٹس’ کا جاری رکھے آنا ہے، اسی طرح ’انڈو چائنہ رلییشنز‘ ہیں۔

ایکیسویں صدی کی نئی عالمی سیاسی و جنگی اسٹریٹجی کی یہ ہی ڈائنا مکس ہے کہ ‘جدید انٹرنیشنل سسٹم ‘ میں اب دنیا کی کوئی بھی قوت دوسری کسی بھی قوت کی نا تو مکمل طور پر دشمن رہ سکتی ہے اور نا ہی مکمل طور پر دوست ۔ جدید انٹرنیشنل رلیشنز کا پورا نظام اب ہر الگ مسئلے کی الگ الگ نوعیت (Subject to Subject ) کے بنیاد پر معاہدوں، اتحاد یا اتفاق کے بنیاد پر چل رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے ایک ہی وقت پر بہت سارے مسائل پر ایک طرف ایک دوسرے سے تنازعات چل رہے ہیں اور دوسری جانب ان ہی ممالک کے آپس میں مشترکہ مفادات پر ایگریمینٹس چل رہے ہیں۔

سرد جنگ جوکہ دوعالمی بلاکس کے مابین دنیا کی ’آخری نظریاتی جنگ‘ کہی جا سکتی ہے، سرد جنگ کے بعد دنیا کی ساری سیاسی، معاشی وجنگی صفبندی محض عالمی و علاقائی مفادات کے بناپرہی سازباز ہورہی ہیں۔

خطے کے بدلتے کردار و مفادات :
۲۵ اکتوبر کو ماسکو میں روس، امریکہ، چائنہ اور پاکستان کے نمائندوں کی ’افغان امن مرحلہ‘ (Afghan peace process) کے حوالے سے میٹنگ ہوئی، جس میں شامل نمائندگان نے ‘امریکہ -طالبان ٹاکس’ کے دوبارہ شروع کرنے اور ۲۸ -۲۹ اکتوبر سے چین کی جانب سے دو روزہ ’انٹرا افغان ڈائلاگ کانفرنس‘ کے حوالے سے اپنا پالیسی بیان جاری کیا۔
’افغان پیس پراسز‘ دو حصوں پر مشتمل ہے؛
۱۔ جس میں افغان امن مرحلے کا ایک حصہ ان عالمی و علاقائی ممالک کے کردار پر مشتمل ہے، جس میں امریکہ، روس، چین، یورپ سے منسلک نیٹو ممالک اور پاکستان کا کردار آجاتا ہے۔
۲۔’افغان پیس پراسز‘ کا دوسرا حصہ ’انٹرا افغان ٹاکس‘ پر مشتمل ہے، جس میں خود طالبان، طالبانوں کے مختلف گروپس،افغان حکومت اور افغانستان میں موجود دیگر اسٹیک ہولڈرز کا کردار آجاتا ہے۔

امریکہ محظ اسی ہی گارنٹی پرخطے میں اپنے کردار کو مخصوص کرنا چاہتا ہے اور خاص طور پر۱۸ سالہ افغان جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے کہ اس ’پیس پراسز‘ میں دیگر علاقائی و عالمی قوتیں اپنا کیا کردار ادا کر سکتی ہیں اور خود افغانستان کی سرزمین کے اندرموجود طالبان سمیت تمام دیگر قوتیں مستقبل میں ’دہشتگردی کے نیٹ ورکس‘ کے دوبارہ منظم نا ہونے کی کس حد تک اور کیا گارنٹی دینے کا کردار ادا کرسکتی ہیں؟ یہ معاملات طے ہونا باقی ہیں۔

۲۰۰۱ع میں نائین الیون کے بعد افغان جنگ میں اب تک ایک اندازے کے حساب سے امریکا کا ۷۱۴ بلین ڈالرز سے بھی زیادہ خرچ ہوچکاہے اورڈھائی ہزار سے زیادہ امریکن سولجرزکی موت ہوئی ہے اور ۲۰ ہزار سے زائدزخمی وگھائل ہوئے ہیں۔ اس سلسے میں جیسے ہی امریکا میں ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی الیکشن جیت کر آئی تو ٹرمپ نے امریکا سمیت پوری دنیا کے اندر اپنی سیاسی وجنگی پالیسی کو واضح کیا کہ ’امریکا فرسٹ‘ اور امریکہ اب دنیا میں ’پولیس مین‘ کا کردار ادا نہیں کرے گا، اسی کے ساتھ ہی ٹرمپ نے افغان جنگ میں ہونے والے نقصانات اور اس میں پاکستان کے بہروپیئے کردار پر سخت الفاظ میں تنقید کرنا شروع کی۔

افغان جنگ کے حوالے سے جولائی ۲۰۱۷ میں کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے اعلیٰ سطحی فوجی کمانڈ کے ساتھ تقریباً مہینے تک مسلسل چلنے والی ایک طویل میٹنگ کی، جس کا اعلانیہ صدر ٹرمپ نے ۱۹ اگست ۲۰۱۷ع کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے جاری کیا جس کو ’نیو افغان پالیسی‘ کا نام دیا گیا۔ اسی سلسلے کی کڑی میں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے گذشتہ سال سے قطر میں قائم کردہ طالبان کے سیاسی دفتر سے اپنے ڈائلاگ کا آغاز کیا۔ امریکی مندوب زلمے خلیل زاد اور دیگر علاقائی و عالمی محرکوں کے کردار کے ذریعے بات چیت کے طویل مراحل کے بعد ستمبر ۲۰۱۹ع میں اسی ہی کیمپ ڈیوڈ میں ٹرمپ سے طالبان کی ایک بیک ڈور میٹنگ میں معاہدہ ہونے ہی والا تھا کہ کابل میں طالبان دھماکے میں ایک اعلیٰ سطح کا امریکی افسر اور کئی دیگر سولجر مارے جانے کے بعد ٹرمپ نے ناصرف طئے شدہ میٹنگ کینسل کردی بلکہ کہا کہ اب امریکہ طالبان ڈایلاگ ’ڈیڈ‘ ہوچکے ہیں۔

امریکہ – طالبان ٹاکس‘ معطل ہونے کا دیکھنے میں تو بظاہر یہ سادہ سا جواز ہے، درحقیقت پردے کے پیچھے کچھ اور معاملات و محرکات کے کردار گردش کرہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف افغانستان کی الیکشن اور اس کے نتائج کومہینوں تک پوسٹپونڈ کردینا اور دوسری جانب خود افغان حکومت سمیت دیگر ’انٹرا افغان پلیئرز‘ کے کردار کو شامل کرنا، تیسری جانب دیگر علاقائی و عالمی قوتوں کے کردار کو ’گارنٹیئرز‘ بنانے کے اسٹریٹجک فیکٹرز شامل ہیں۔ ہم تجزیہ کر سکتے ہیں کہ اگر یہ سارے محرکات ممکنہ رول پلے کریں یا گارنٹیئرز کا کردار ادا کر بھی لیں تو بھی امریکہ افغانستان میں اپنا کردارایک حد تک ‘مخصوص’ تو کرسکتا ہے پر اس خطے میں اپنے لانگ ٹرم اسٹریٹجک مفادات کے تناظر میں مکمل طور پر ایک تو اپنا فوجی انخلاء نہیں کرنا چاہتا، دوسرا ۲۰۲۰ع کی امریکی الیکشن تک ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اس معاملے کو اسی طرح برقرا ر رکھتے نظر آتی ہے۔

امریکہ خطے میں اپنا کردار ممکنہ طور پر مخصوص یا محدود کیسے اور کیوں کرنا چاہتا ہے؟
طویل افغان جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی اس خطے کے مشرق وسطیٰ ، جنوبی اور وسط ایشیا کے حوالے سے پالیسی واضح ہے۔ شام سے لیکر افغانستان تک سالوں سے چھڑی ہوئی جنگوں کے بارے میں صدر ٹرمپ ’نا ختم ہونے والی جنگیں‘ (Endless Wars) کا اصطلاح استعمال کررہا ہے۔

جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے امریکہ اس خطے کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر رہاہے۔ جس کا تازہ مثال شام میں کرد فورسز کی مدد سے داعش کو شکست دینے کے بعد امریکی فورسزکا انخلاء اور کرد فورسز کوٹرمپ کے اصلاح کے مطابق ان کی (Endless War) میں اکیلے چھوڑدینا ہے اور اسی ہی خطے میں ٹرمپ ایک طرف روس اور ترکی سمیت دیگر علاقائی و عالمی قوتوں کا کردار دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے جنگی اخراجات اور فوجی نقصانات کو بچانے کے لیئے اسی خطے کی ’ریجنل سیٹلمینٹ‘ کی ذمہ داری میں اب دوسری علاقائی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی کھلی دعوت دے رہا ہے۔ جس سلسلے میں تازہ روس کے ’بلیک سی‘ کے ایک شہر ’سوچی‘ میں روس کے صدر پیوٹن اور ترکی کے صدر اردگان کے بیچ ٦ گھنٹے تک چلنے والی ایک طویل میٹنگ ہوئی، جس کے بعدشمال مغرب شامی سرحد کے علاقے کے حوالے سے ’سوچی معاہدہ‘ ڈکلئیر کیا گیا۔

جس کے مطابق کرد فورسز نے ۳۰ کلومیٹر تک وہ علاقہ خالی کردیا اور امریکہ نے علاقائی قوتوں کی اسی (Replacement) والے کردار کو سراہا۔ جس کے بعد مذکورہ علاقے میں روس، ترکی اور شام کی فورسز پہنچ کر اپنا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اپنے لانگ ٹرم مفادات کے تناظر میں عراق، کوویت، سعودی عرب، خلیج فارس سمیت مڈل ایسٹ کی ان ساری اسٹریٹجک پوائنٹس پر اپنی پوزیشن برقرارکھا ہوا ہے، جن اسٹریٹجک پوائنٹس پر تیل و دیگر ذخائر موجود ہیں یا سپلائی لائن کے ٹریڈ روٹس ہیں، کیونکہ ‘ریجنل پاور شفٹ’ کے ٹرانزیشنل پیرڈ میں اسی ہی خطے کی اہم اسٹریٹجک پوائنٹس پر سعودی، ایران اور اس رائیل کے تنازعات بھی اپنی شدت سے سر اٹھاکر چلے آ رہے ہیں، اس تناظر میں کسی بھی پوائنٹ پر امریکہ ایسی کوئی بھی اسٹریٹجک غلطی نہیں کرنا چاہتا جس ‘ریجنل ویکیوم’ کا فائدہ ایران یا دوسری اینٹی امریکہ فورسز اٹھائیں۔

مڈل ایسٹ کی طرح امریکہ وہ ہی ’ریجنل سیٹلمینٹ‘ (Regional Settlement) کا ماڈل جنوبی و سط ایشیا میں بھی لانا چاہتا ہے۔ جہاں پر اس خطے میں ایک طرف امریکہ ’سیپیک اور بی آرآء‘ کی شکل میں چائنہ کی بڑھتی ہوئی ’معاشی و اسٹریٹجک پوزیشن‘ کو محدود کرنا چاہتا ہے اور ’انڈوپیسفک ریجن پالیسی‘ کے ذریعے اپنے جیو اسٹریٹجک کردار کو بڑھانا چاہتا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی ۱۸ سالہ (Endless War) سے جان چھڑاکر اب اس خطے کی ’ریجنل سیٹلمینٹ‘ کی ذمہ داری اٹھانے کے لیئے روس، چین، انڈیا اور پاکستان سمیت خطے کی دیگر قوتوں کے کردار کو جگہ (Space) دینا چاہتا ہے۔ بلکل اسی طرح جس طرح مڈل ایسٹ میں کن مخصوص جنگی زون کے علاقوں کی ’ریجنل سیٹلمینٹ‘ کا کنٹرول روس اور ترکی کے حوالے کردیا، جبکہ تیل و دیگر اسٹریٹجک مفادات سے وابسطہ علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا۔

امریکہ اسی طرح جنوبی و وسط ایشیاء میں اپنے جنگی کردار کو مخصوص و محدود کرکے مڈل ایسٹ والے ماڈل کو افغانستان سمیت پورے خطے میں لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جس سے مستقبل قریب میں افغانستان سمیت خطے کے تمام ’جنگی زون‘ میں روس اور چین سمیت دوسری علاقائی قوتوں کا بڑھتا ہوا کردار اور امریکہ کا خالی کیا ہوا (Space) بھرنے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔