حانی، جدوجہد کی ایک زندہ مثال – میرین بلوچ

328

حانی، جدوجہد کی ایک زندہ مثال

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہی لوگ دنیا کی تاریخ میں ایک زندہ مثال بن جاتے ہیں جن کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے اور دنیا کی انسانیت پسند لوگ جدوجہد کرنے والوں کو فخر انسانیت کے نام سے جانا جانتے ہیں کیونکہ دنیا کی ترقی انہی جدوجہد کرنے والوں کی مرہون منت ہوتی ہے، دنیا کے ہر خطے میں ایسے لوگوں نے جنم لیا جن کی زندگی کا مقصد قوم کی امن ؤ سلامتی اور بقاء کی آزادی کیلئے ہوتا ہے اور زندگی بھر تاریکوں میں سورج بن کر چمکتے رہتے ہیں۔

دنیا میں کُچھ ایسے بھی شخص پیدا ہوتے ہیں جو ل کبھی بھی ہار نہیں مانتے بلکہ وہ جدوجہد کرکے تاریخ میں ایک نیا فلسفہ قائم کر دیتے ہیں۔

آج میں ایک ایسے انسان،انسانیت کے بارے میں لکھ رہا ہوں جو کسی تعریف کا محتاج ہی نہیں؟ کیونکہ میں ان لکھاریوں میں سے نہیں کہ میں اُنکی گواہی دوں لیکن جتنی میریAbility ہے میں ضرور لکھوں گا۔

ایک ایسی لڑکی جسکی ہمت شاید پوری کائنات کو ہلا کر رکھ دے اور میں کون ہوتا ہوں اُنکی گواھی دینے والا، بلکہ اُنکی آنکھیں خود ہی گواھی دیتے ہیں
جی ہاں! حانی جدوجہد کی ایک زندہ مثال بن چکی ہے بلکہ 26سال کی اسماء بن کر قابض فوج کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ایک چٹان بن کر کھڑی ہے
آج ایک ایسی لڑکی جسکی عمر تقریباً اٹھارہ،انیس سال کی ہے، جو ہاتھ میں ہتھیار کے بجائے ہاتھ میں قلم لیکر دشمن افواج سے لڑ رہی ہے اور اُن سے اپنا انصاف چاہتی ہے تاکہ آنے والے دنوں میں یہ نوبت نہ آئے۔

پوری دنیا میں جتنی مردوں کی آبادی ہے اتنی خواتین کی بھی، کیونکہ مردوں کے برابر دنیا کی نصف آبادی خواتین کی بھی ہے۔
اگر ہم کردستان میں کرد خواتین کی بات کریں جنکی بڑی تعداد آزادی کی تحریک میں شامل ہیں، جو مردوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں تحریک کا کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور اپنے گوریلوں کی گوریلا حملے کی تربیت بہتر انداز سے کررہی ہیں اور دشمن پر آسانی سے حملہ کرکے کامیاب ہو رہے ہیں۔

آزادی کی جدوجہد میں خواتین کی لمبی فہرستیں ہیں، فلسطین میں لیلیٰ خالد، الجزائر میں جمیلہ، ہندوستان میں اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی، کردستان میں سمیرم، برما میں سان سوچی, بنگلہ دیش میں حسینہ واجد جنہوں نے وطن کیلئے ہر قربانی دی۔ جو آج کی خواتین کی جدوجہد کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جنہوں نے سامراجی قبضہ گیریت، معاشی و سماجی ناانصافی اور سیاسی ظلم و استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کی ہے۔

بلوچ کی تحریک میں دیکھیں تو ہمیں بہت سے کارنامے ملتے ہیں، خواتین کا ایک بڑا کردار ہے، دادشاہ کی بہن خاتون بی بی اور چاکر کی بہن بانڑی کی دشمن کے خلاف محاذ جنگ پر لڑائی ایک عظیم مثال ہے۔ آج کی آزادی کی جدوجہد میں کئی بانڑی اور خاتون بی بی شامل ہیں، دشمن کے خلاف کل کی طرح آج بھی بلوچ خواتین نے اسی روایت کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا ہے، جو دشمن کے خلاف آج بھی بغاوت کررہے ہیں، جس کی مثال پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ خواتین کے جلسہ جلوسوں میں شرکت، احتجاجی پروگراموں اور ریلی مظاہروں میں دھرنا، اسٹڈی سرکل, سیمینار اور ورکشاپس منعقد کروانا خواتین کی سیاسی تربیت اور ذہنی نشوونما کرنا، ان کو آزادی کی تحریک کا اہم حصہ بنانا، ایک عظیم مثال ہے.

اسی طرح آج کئی بانڑی حانی گل کی روپ میں دیکھے جاتے ہیں آج حانی گل ہتھیار کے بجائے ہاتھ قلم میں لیکر ہر مقابلہ کیلئے ایک چٹان کی طرح کھڑا ہے۔

جی ہاں حانی گْل اور اْن کے منگیتر جو گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی میں ہمدرد میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم تھے،اور پانچ مہینے پہلے سیکیورٹی ایجنسیوں نے اغواء کیا۔ تین مہینے تک حانی زیرِ حراست رہی اور اْن پر ہر طرح کا تشدد بھی کیا گیا، بعدازاں حانی کو رہا کر دیا گیا لیکن جبکہ اْن کا منگیتر نسیم تاحال لاپتہ ہیں۔

حانی نے کہا کہ میرے اور نسیم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جہاں وہ طیاروں اور گاڑیوں کی آواز سن سکتی تھی
حانی نے کہا کہ مجھے اور نسیم کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بندوق سے مارا گیا، تھپڑ مارے گئے اور کبھی بال کھینچے گئے اور کہا جاتا رہا کہ تم لوگ تسلیم کرو تمہارا تعلق بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے سے ہے۔
اور حانی کا کہنا ہے کہ تشدد کے باوجود ہم انکار کرتے رہے کہ ہمارا تعلق بی ایل اے سے نہیں ہے بلکہ ہم طالب علم ہیں یہ تو ظاہر کی بات ہے اگر کوئی بغاوت کرے گا وہ تو شہروں میں نہیں بلکہ پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اسی طرح آپ کا گورنمنٹ بھی کہتا ہے کہ پڑھو لکھو، قلم کو اٹھاو، ہم نے تو بندوق نہیں اٹھائی بلکہ ہم نے تو قلم اٹھائی ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ آئے روز ہمارے پیارے بہنوں کو لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں بند کر دیتے ہیں اور اُنکی عصمت دری کرتے ہیں اور اُنکو ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں آج تک کئی عرصہ ہوچکا ہے کہ بانک زرینہ مری ابھی تک عقوبت خانوں میں قید ہیں، پتہ نہیں اُنکے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا آج سو سے زائد بلوچ خواتین ازیت خانوں میں بند ہیں اُنکا ریپ کرکے کسی کو مردہ حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔
آج تک کئی طالب علم اور نوجوان ازیت خانون میں بند ہیں نہ جانے وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں اور دوسری طرف اِن کی بیویوں کی ازدواجی حیثیت کا مسئلہ الگ سے چل رہا ہے، کہ وہ شادی شدہ ہیں یا بیوہ ہیں؟

بلوچستان میں ایک عام بلوچ بھی اپنے گھر پر محفوظ نہیں،قابض فوج دن دھاڑے آکر عام آبادی کو نشانہ بناتا ہے حتی کہ شیرخوار بچوں کو بھی نہیں بخشتا ہے اور اسی طرح تین مہینے کے بعد حانی گل کو 22 جون کی رات ڈیڈھ بجے تو چھوڑ دیا اور ساتھ میں دھمکی بھی دیا کہ ھم نے جو بھی کیا تمھارے ساتھ، ایسا کسی کو نہیں بتاؤگی ،مگر حانی نے ہمت دلیری سے نہ ہچکچاتی ہوئی ساری دنیا کے سامنے پاکستان کی ناپاک آرمی کے کالے کرتوتوں کا پردہ پاش کیا اور انٹرنیشنل انسان دوست تنظیموں سے ظالموں کے خلاف ایکشن لینے کی اپیل بھی کی.جبکہ نسیم چھ مہینے سے ابھی تک درندہ فوج کی حراست میں ہے۔

حانی بلوچ آج تک انصاف مانگنے کیلئے کئی دروازوں پر دستک دے رہی ہیں کہ مجھے انصاف دو، کبھی کورٹ کی کہچیروں میں اور کبھی پریس کلب، کبھی VBMP کی کیمپ میں بیٹھی ہے اور ایک امید کے ساتھ انصاف مانگ رہی ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔