جامعہ بلوچستان کے مافیائی منتظمین
تحریر: بامسار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جامعہ بلوچستان کے ڈیپارٹمنٹس میں سے ایک بدنام زمانہ ڈیپارٹمنٹ سوشیالوجی کا ہے جو کہ پورے یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریشن سے لے کر طلباء، اساتذہ، کلرک، اور چپراسیوں تک کے قصیدوں میں یاد ہونے کا شرف رکھتا ہے۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ جس میں سماج کو مختلف مفکروں کے نظریات سے روشناس کرتے ہوئے سماج کو سدھارنے کے لئے جدید سائنٹفک اصولوں کو بروئےکار لا کر ترقی کی جانب لے جانے کا ڈسپلن سمجھایا جاتا ہے، بد قسمتی سے ہمارے یہاں سماج کو سدھارنا تو درکنار اسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے کی بھرپور زور آزمائی کی جا رہی ہے۔
مہذب دنیا میں طلباء اور اساتذہ کا رشتہ بہت پاک اور عظیم مانا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں اس رشتے کو باعث شرم بنانے میں اساتذہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔ جامعہ میں بچوں کو ہراساں کرنا، بلیک میلنگ، دھونس دھمکی اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا جیسے ایک رواج سا بن چکا ہے۔ آئے روز طالبات کو بلیک میل کرکے ہراساں کرنے کی خبریں اڑتی رہتی ہیں۔ حتی کہ حال ہی میں چند شکایات پر ایف آئی اے نے بھی چھاپے مار کر کیسز بھی پکڑے ہیں مگر سلسلہ بدستور جاری ہے۔
یوں تو سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں نہ کوئی لائبریری موجود ہے نہ پڑھنے پڑھانے کا رجحان اور نہ ہی جدید لٹریچر سے طلباء اور اساتذہ کی کوئی وابستگی ہے جس سے علم و دانش کا سلسلہ پروان چڑھ سکے۔یہاں ہمیشہ سے ایک ہی روایت قائم ہے کہ انتطامیہ اپنی نااہلیوں کو چھپانے کیلئے مزید نااہلیت کو پروان چڑھاتی رہتی ہے۔ یہاں چند چیزیں ضرور موجود ہیں جنکی بنیاد پر پورے ادارے میں یہ ڈیپارٹمنٹ ایک خاص مقام محفوظ رکھتا ہے۔ جیسا کہ اساتذہ کے ساتھ بے دریغ اختیارات کا ہونا اور ان اختیارات کے ناجائز استعمال کا درست موقع ہمیشہ امتحانات کے دنوں میں امتحان حال میں دکھایا جاتا ہے۔ طلباء کو امتحانی حال میں ڈرانا دھمکانا اور ہراساں کرنا اختیارات کے استعمال میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ من پسند لوگوں کو ریلیکسیشن مہیا کرنا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
حال ہی میں جامعہ بلوچستان میں تمام ڈیپارٹمنٹس میں مڈ کے ایگزام جاری ہیں اور یہ دن پھر سے ڈیپارٹمنٹ کے بلیک میلنگ گروہ کے لئے اپنی من مانی اور طاقت دکھانے کا موقع ہے جس کا فائدہ اٹھانے میں انہوں نے کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء جو شہری زندگی اور تعلیمی اداروں کے ان رویوں سے بیزار حالت میں بھی گزارہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ اپنی ڈگری کو اساتذہ کی ذاتی نااہلیوں اور انا کی بھینٹ چڑھنے سے روک لیں اور وہ کسی صورت ڈگری لے کر اپنی بری حالتوں کو سدھارنے کیلئے زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔ مگر جب اساتذہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال نہیں کریگا تو وہ طلباء کو پھر ڈرا دھمکا اور ہراساں کیسے کر سکے گا؟
حال ہی کے امتحانات میں بہت سے طلباء کو ذاتی بغض اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر بے رحم اساتذہ نے امتحانی حال سے حاضری مکمل نہ ہونے کی بے بنیاد جواز پر نکال دیا۔ HEC کے سیمسٹر کے حاضری کے قوانین کے مطابق طلباء کے پورے سیمسٹر کا 75 فیصد حاضری ضروری ہے۔ اگر پورا نہ ہو تو طالبعلم فائنل کا امتحان دینے کا حق نہیں رکھتا۔ جبکہ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے مطابق وہ HEC کے قوانین کا پابند نہیں ہیں۔ اس لئے وہ الگ سے قوانین لاگو کرتے ہیں جو کے طلباء کے پورے کیریئر کو ایکسپلائٹ کرنے کے مترادف ہے۔
اس وقت BS اور MSC کے بہت سے طلباء سے امتحان نہیں لیا گیا ہے اور چند طلباء کو چیئرمین کے جانب سے جاری کردہ ایک ایفیڈیوٹ سائن کرنے کے شرط پر امتحانات دینے کی اجازت ملی ہے۔ جن طلباء کو امتحان دینے کی اجازت نہیں ملی ان میں اکثریت ان طلباء کی ہے جنہوں نے ریگولر کلاسیں بھی لی ہیں۔ جبکہ وہ طلباء جنہوں نے کلاس ہی نہیں لیئے وہ امتحان میں اپئیر بھی ہوئے اور کسی اچھے ریسٹورانٹ میں ان مخصوص اساتذہ کو کھانا کھلا کر پاس بھی ہوجائینگے۔ مگر وہ طلباء جنکا امتحان نہیں لیا گیا انکا پورا سال بشمول رزلٹ آخری سیمسٹر میں پہنچ کر داو پر لگا لیا گیا ہے۔
ایسے رویوں سے ادارے مزید تباہی و بربادی کی جانب بڑھینگے اس لئے ضروری ہیکہ حکومت وقت، ایڈمنسٹریشن، سیاسی پارٹیاں اور طلباء تنظیمیں اساتذہ کے جانب سے ایسے رویوں کا نوٹس لیں اور طلباء کو ایسے اساتذہ کی حرکتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے موثر اقدامات اٹھائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔