ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے سربراہ میر جاوید مینگل نے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کو بلوچ قوم کیخلاف نوآبادیاتی جبر کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست مختلف حربوں سے بلوچ قوم کو زیر کرنے کی کوشش کررہی ہے، بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل واش رومز میں کیمروں کی انسٹالمنٹ اور طلباء و طالبات کو بلیگ میل کرنا دراصل بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے اور انکی علمی و سیاسی شعور پر قدغن لگانے کی سازش ہے۔
انہوں نے کہا ریاست ہمیشہ بلوچ سرداروں کو تعلیم کے آگے رکاوٹ قرار دے کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن اس کے برعکس ریاستی ادارے ہمیشہ قوموں کی شعور اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگاتے رہے ہیں، بلوچستان یونیورسٹی واقعہ اس سلسلے کی کڑی ہے اس کے علاوہ بولان میڈیکل کالج میں رونما ہونے واقعات، طالبات کو کمروں سے بیدخل کرنا، دیگر تعلیمی اداروں میں فورسز کی مداخلت اور خصوصا بلوچستان یونیورسٹی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرنا بلوچ قوم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی ایک سوچی سمجھی ریاستی کوشش ہے۔
میر جاوید مینگل نے کہا قابض ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کی مشترکہ قومی غیرت و ننگ و ناموس پر کئی حملہ ہوچکے ہیں جسکا مقصد بلوچ قوم میں موجود سیاسی سوچ کی آزمائش و پیمائش کرنا ہے، نوجوان کسی بھی قوم کے لئے اثاثہ و مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، ریاست، جبری گمشدگیوں، اجتماعی قبروں، مسخ شدہ لاشوں کے بعد اب براہ راست بلوچ قوم کے مستقبل کے معماروں پر حملہ آور ہوکر ہماری نسلوں کو غلامی ، بے بسی و لاچاری کی تصویر بنانا چاہتی ہے،لیکن ریاست اور اس کے نااہل پالیسی ساز یہ بھول چکے ہیں کہ آزمائشوں اور امتحانوں کا یہ سلسلہ بلوچ وطن پر بیرونی یلغار کے وقت سے شروع ہے لیکن ہمیشہ قابضوں کی ہر پالیسی کو بلوچ قوم نے اپنی اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی سے ناکام بنائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ سرزمین پر رونما ہونے والی حالیہ واقعات ہر قوم دوست ، وطن دوست انسان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں، اب یہ ہر ذی شعور کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ طلباء و طلبات کے تعلیمی سرگرمیوں کی دفاع کے لیے ریاست کے ان ناپاک عزائم کو تکمیل سے روکنے کے لئے ہر سطح پر مزاحمت کریں تاکہ دوبارہ کوئی ایسی مکروہ سوچ پر عمل درآمد سے پہلے سو بار سوچے،بلوچستان کی تمام سیاسی و سماجی اور طلباء تنظیموں و پارٹیوں کو بلوچستان یونیورسٹی واقعہ کیخلاف متحد ہوکر بھر پور احتجاج کرنا چاہیے ۔