جامعہ بلوچستان اسکینڈل، طلباء تنظیموں کا اظہار مذمت

220

بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی اسکینڈل کے حوالے سے طلباء تنظیموں کوئٹہ پریس کلب کے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اظہار مذمت کی ہے۔

طلباء ایجوکیشن الائنس کے رہنماوں کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ صوبے کی سب سے بڑی مادر علمی بلوچستان یونیورسٹی میں مسلسل بلیک میلنگ اور طالبات کو ہراسان کرنے کے واقعات پر شدید تشویش ہے۔ طلباء ایجوکیشن اللائنس گذشتہ ایک سال سے ان واقعات کو میڈیا عوام سیاسی پارٹیوں سول سائٹی اور ہر شعبہ زندگی کے سامنے لانے کی کوشش کرتی رہی ہے اور الائنس کے رہنماوں نے وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کی اخلاقی کرپشن سمیت اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، یونیورسٹی کو نو گو ایریا بنانے، سیاسی طلباء تنظیموں پر پابندیاں عائد کرنے کے غیرقانونی اقدامات کو صوبے کی سیاسی پارٹیوں، گورنر، منتخب اپوزیشن ممبران اسمبلی اور حکومتی اراکین اسمبلی، صوبائی وزرا، ڈپٹی اسپیکر، صحافیوں سمیت ہر شعبہ زندگی کے افراد کو آگاہ کیا ہے ان مسائل کی نشاندہی کی وجہ سے یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی گئی اور بعض طلبا تنظیموں کے سیاسی سرکلر کو اکھاڑا گیا اور ان کی رہنماؤں پر پابندی عائد کی گئی۔ مسائل کی نشاندہی پر وی سی نے بعض طلبا رہنماؤں پرعدالتوں میں ہتک عزت کے دعوے کئے گئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی سی ٹی ویڈوز کے ذریعے طالبات کو بلیک میل کرنے کے دل دہلا دینے کے واقعات میں وی سی کے قریبی اور من پسند افراد، اسٹاف آفیسر، یونیورسٹی سیکیورٹی برانچ کے آفیسران، اہلکاروں، سیکورٹی سرویلنس آفیسر سمیت درجنوں دیگر آفیسران اور ملازمیں ملوث ہیں جس کی برا راست ذمہ داری وی سی پر عائد ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وی سی نے یوبین نامی خفیہ تنظیم قائم کی ہے۔ جس کا سربراہ وی سی کے بدنام زمانہ پی ایس ہیں۔ وی سی کے پی ایس کی جانب سے طلبا و طالبات کو بلیک میل کرنے کے واقعات سے ساری یونیورسٹی آگاہ ہیں۔ درجنوں طالبات اور فیمیل ملازمین کو بلیک میل کیا گیا ہے خاص کر اس اہم کام میں وی سی کا چہیتا اور خاص سیکورٹی سرویلنس آفیسرز ملوث ہیں اب اس سارے واقعے کی تحقیقات ایف آئی اے کر رہی ہیں اور باقاعدہ اس اہم معاملے پر حکام بالا کے دباؤ پر انکوائری جاری ہے یونیورسٹی کے سیکیورٹی کیمروں اور سی سی ٹی وی کیمروں کے کنٹرول رومز بلیک میلنگ کا اہم مرکز ہے جو وی سی کی آشیرباد کے بغیر ناممکن ہے۔ گورنر بلوچستان اس اہم اسیکنڈل کی صاف اور شفاف تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرے اور اس ملوث افراد کیخلاف بلاتمیز سخت کروائی کی جائے جو ہمارے صوبے کی عزتوں سے کھیلتے ہیں۔

طلبا رہنماوں کا کہنا تھا کہ وی سی نے گذشتہ سالوں کے دوران ایسے اقدامات کیئے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی علمی حوالے سے تباہ ہوچکی ہے۔ وی سی نے گذشتہ دنوں قوانین کیخلاف ایک دوسرے پرو وائس چانسلر کی تقرری کی مذکورہ پرو وائس چانسلر لندن میں غریب صوبے کے اخراجات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کرچکا ہے اور انہیں یونیورسٹی واپس آنا تھا لیکن انہوں نے آنے کی بجائے وہاں پر کاروبار شروع کیا اور حکومت نے انہیں باقاعدہ طور پر مفرور قرار دیا تھا اور ان پر یونیورسٹی میں کیسز بن چکے تھے بجائے ان کو گرفتار کرنے انہیں پرو وائس چانسلر بنا دیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے سالوں کے دوران بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرارز کی آسامیوں پر غیر قانونی تعناتیاں کی گئی ہیں ہزاروں طلبا و طالبات نے این ٹی ایس کے ذریعے ٹیسٹ دیئے جن میں 70 اور 80 نمبر والوں کو نظر انداز کرکے 50 اور 55 نمبر لینے والوں کو سفارش کی بنیاد پر تعینات کیا گیا متاثرہ امیدواروں نے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے۔

رہنماوں نے کہا کہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر کے ٹیسٹ میں فیل ایک امیدوار کو غیر قانونی طریقے سے اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کیا گیا جس کے خلاف سنڈیکٹ ممبران نے تحریری طور پر اختلافی نوٹ بھی لکھا وی سی کے بیٹے سجاد حیدر کو یونیورسٹی کے تمام قوانیں اور ایکٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر تعنیات کیا گیا۔ 21 گریڈ کے پروفیسر کو دانستہ طور پر 20 گریڈ کے کنٹرولر کی پوسٹ پر تعنیات کیا گیا ہے تاکہ شعبہ امتحانات اور کنڈکٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا جاسکے ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شعبہ امتحانات میں جعلی ڈگری سیکنڈل اور جعلی امتحانات سیکنڈل پر معمولی کاروائی کے بعد اس پر پردہ ڈال دیا گیا ہے، وی سی اور ڈی جی پلاننگ گٹھ جوڑ کی تحقیقات کر کے گذشتہ سالوں کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کمیشن من پسند افراد کو ٹھیکے دینے کا معاملہ عوام کے سامنے لایا جائے

طلبا رہنماوں کا کہنا تھا کہ ان غیر قانونی اقدامات کی پاداش میں گورنر بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فی الفور موجودہ وی سی کو برطرف کریں اور ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنا کر گذشتہ چھ سالوں کے دوران کئے گئے تمام غیر قانونی اقدامات اور واقعات کی تحققات کریں اور یونیورسٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے جائے۔