جامعہ بلوچستان اسکینڈل، بی ایس او نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا

415

بی ایس او کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کے چھاپے اور تہلکہ خیز انکشافات نے طلبہ کے بارہا اٹھائے گئے خدشات پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے، طلباء بارہا نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کو ہراساں کیا جا رہا ہے، نہ صرف سیکیورٹی اسٹاف بلکہ اساتذہ اور اعلی سطحی انتظامیہ بھی اس بدکاری میں ملوث ہے مگر ہمیشہ طلباء کے تحفظات کو رد کیا جاتا رہا ہے جوکہ اب ایف آئی اے  کی کارروائی کے بعد  یونیورسٹی سمیت پورے قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بن چکی ہے۔

مذکورہ واقعہ سے طلباء اور استاد کے درمیان مقدس رشتہ مشکوک ہو گیا ہے اور والدین کا بھروسہ بھی مدرعلمی سے ٹوٹ چکا ہے جس سے اعتماد کا شدید فقدان جنم لے چکا ہے اور بلوچستان کی شرح خواندگی کی پہلے سے قابل ترس کیفیت تیزی کے ساتھ مزید گراوٹ کا شکار ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

طلباء کی شدید احتجاج اور مظاہروں کے بعد اعلی حکام کی جانب سے تاحال کوئی خاطرخواہ اقدام نظر نہیں آئی ہے، وائس چانسلر کو عارضی طور پر معطل کرکے اس سنگین مسئلے کو سرد مہری کا شکار بنانے کی مکروہ چال چلی گئی ہے، جبکہ کمیٹیوں کی تشکیل کا روایتی حربہ استعمال کرکے مسائل کو ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے کے سبب بنیں گی۔

لہذا ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل نکات پر فوری عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

اول ، بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ میں ملوث تمام کرداروں کو منظر پر لا کر انہیں فوری برطرف کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔

دوئم ، وائس چانسلر یونیورسٹی کے سب سے متنازعہ کردار بن چکے ہیں, انہیں عارضی طور پر معطل کرنے کے بجائے باقائدہ فارغ کیا جائے اور میرٹ پر اہل استاد کو وائس چانسلر کی زمہ داری سونپ دی جائے۔

سوئم، یونیورسٹی کے اندر نصب تمام سرویلنس کیمروں کو ہٹا کر صرف انٹری گیٹ تک محدود کیا جائے۔

چہارم، یونیورسٹی میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے اور مسلح اہلکاروں کی نقل و حرکت کو محدود کرکہ انہیں یونیورسٹی گیٹ پر ہی مامور کیا جائے۔

پنجم، اٹھارویں ترمیم کی رو سے ماہر تعلیم کی سرپرستی میں پراونشل ہائیر ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیا جائے اور گورنر کے اختیارات کو ختم کرکہ یونیورسٹی کو صوبے کے ماتحت لایا جائے۔

ششم، بلوچستان اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی سمیت دیگر جتنی بھی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی ان میں طلباء نمائندگان کو شامل کیا جائے اور کمیٹی میں صنفی برابری کو یقینی بنایا جائے۔

ہفتم، بلوچستان یونیورسٹی میں فوری طور پر ہراسمنٹ کی روک تھام کا ایک باقائدہ سل قائم کیا جائے جہاں طلباء اپنی شکایات درج کر سکیں, اور ایسا ہی سل ہر تعلیمی ادارے میں بھی قائم کی جائے۔

ہشتم : بلوچستان کے کسی بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک میعاد ملازمت سے زیادہ توسیع نا دی جائے, اور مدت پورا کرنے والے تمام وائس چانسلرز کو ہٹا کر نئے وائس چانسلرز مقرر کیئے جائیں۔

نہم ، طلباء نمائندگی کی جمہوری حق کو تسلیم کرکے طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔