بلوچ طلباء تفریقی پالیسی اور کراچی یونیورسٹی
محمود بشیر
دی بلوچستان پوسٹ
چند سال قبل کراچی یونیورسٹی میں بلوچ طلباء نے ایک تنظیم تشکیل دی تھی۔ جس کا مقصد ایک ایسی پلیٹ فارم کا قیام تھا جسکا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں سے کنارہ کشی اس لیئے کیونکہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے بلوچ طلباء میں کافی حد تک تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ اس کثیرالجہتی تفریق کو یہاں اس تنظیم کے ذریعے ختم کرنے کا اعادہ کہا گیا تھا۔ اور بلوچ طلباء کے لیئے تعلیمی، شعوری و اکیڈمیک کاموں پر اپنی خدمات کو پیش کریں نے کا عہد کیا گیا تھا۔
بعد از تشکیل، تنظیم تین/چار سال تک چلتی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان طلباء کو بلوچستان میں ایک ایسی بڑی طلباء تنظیم عمل کرتے نظر آیا جس کے مقاصد عین اس چھوٹی تنظیم سے مشابہت رکھتے تھے۔ کام و مقاصد میں عین مشابہت کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی کے بلوچ طلباء نے اس چھوٹی تنظیم کو اس بڑی تنظیم میں ضم کرنے کا ارادہ کیا تاکہ بلوچ طلباء کی قوت یک مشت ہو کرملک کے دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچ سکے اور بلوچ طلباء کو متحد کیا جا سکے۔
یونیورسٹی کے کچھ بلوچ طلباء کو اس بڑی تنظیم کی اپنی عہدیداران کو مرکز سے جمہوری انداز مین منتخب ہونے کا عمل ناگوارا گزرا۔ ان اعتراضات کو نظر انداز کر کے جامعہ کراچی کے بلوچ طلباء اپنی چھوٹی تنطیم کو اس بڑی تنظیم میں ضم کرنے کی غرض سے بڑی تنظیم کو اپنی اس ارادے سے آگاہ کیا۔ بڑی تنظیم کو یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا اور اس طرح اس چھوٹی تنظیم کو بی ایس اے سی میں ضمن کیا گیا۔ بی ایس اے سی نے جامعہ کراچی میں اپنی ایک نئی یونٹ تشکیل دیا۔ اور جن طلبہ کو بی ایس اے سی سے اعتراضات تھیں انھوں نے اُس چھوٹی تنظیم کے نام سے اپنی تنظیمی سرگرمیاں برقرار رکھنے کی کوشش کی اور نعرے لگایا کہ “وی آر فیملی، وی آر بی ایس ای او”۔ یعنی جو تنظیم اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے بنایاگیا تھا اُسی تنظیم کے بنیاد پر کچھ بلوچ طلباء نے تفریق کو جنم دیا، جس سے بلواسطہ بلوچ طلباء کی قوت کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کا میں یہ مطلب سمجھتا ہوں کہ اُن طلبہ کو شاید سابقہ بی ایس ای او کے اصل منشور یا مقصد کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں اور بلاوجہ اس تفریقی پالیسی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اصل رہنماء وہ ہوتا ہے جو تنظیم کی تشکیل قوم کو آگے بڑھانے کیلئے کرتا ہے نہ کے صرف تنظیم کی ساخت کا استحصال کرنے کے لیئے۔
اسی تفریقی پالیسی پہ عمل کرتے ہوئے آج کل بلوچستان میں جماعت چہارم کی کتاب میں بچوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ، براہوئی اور پشتون قوم آباد ہیں۔ یعنی لسانی بنیادوں پہ بلوچ قوم میں تفریق پیدا کرنے کہ کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل بلوچ کثیرالسانی قوم ہے۔ بلوچ کی باقی زبانوں کی طرح براہوئی بھی بلوچ قوم کی ایک زبان ہے۔ لیکن قوم کی کثیرالسانی خصوصیت کو اس تفریقی پالیسی کے لیئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی کوشش پہلے بھی کئی بار ناکام ہوچکی ہے اور آگے بھی ہوگی۔
کراچی یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کو دوراندیشی سے سوچنا ہوگا۔ اس تفریق کو ناکام بنانے کے لیئے “#ویاربلوچویار_فیملی” کا نعرہ بہتر رہے گا۔ امید ہے آج کل کے شوقیہ لیڈر میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور بلوچ طلباء میں تفریقی پالیسی پہ عمل کو ترک کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔