بلوچ طلباء اور اتحاد – واھگ بلوچ

260

بلوچ طلباء اور اتحاد

تحریر: واھگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“Our ability to reach unity in diversity will be the beauty and the test of our civilization”

Ghandi

اتحاد کا مطلب ایک ہونا، یہ کیسے ممکن ہے؟ ایک بنیاد پر سب کو اکھٹا کرنا کتنا مشکل ہے؟ ایک مضبوط بنیاد ایک مضبوط اتحاد بنا سکتا ہے۔
آج صرف اور صرف “بلوچ” ایک مضبوط بنیاد ہے، اس بلوچ کے ساتھ کوئی اور ٹرم لگا کر تقسیم ہونا بیوقوفی اور نادانی ہے۔ میں اتحاد کی بات کر رہا ہوں، الائنس کی نہیں۔ بڑے لیول پر تقسیم کچھ کچھ سمجھ آ جاتا ہے، پر اسٹوڈنٹ لیول پر تقسیم سمجھ سے بالاتر ہے۔ جن طلباء کا کام ہے پڑھنا، اپنے مسئلوں سے آگاہ ہونا، اپنے آپ کو فرنش کرنا، وہ بلوچستان میں کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں جاتے ہی تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس تقسیم کو ختم کرنا کیسے ممکن ہے؟ بلوچ اسٹوڈنٹس اس تقسیم کو سالوں سے practice کرتے آ رہے ہیں، اگر ان کے سامنے چھوٹے لیول پر اتحاد practice ہو رہا ہو تو وہ اس کو پہچان نہیں پائیں گے۔

بلوچ اسٹوڈنٹ تنظیمیں dystopia میں جی رہے ہیں ان کو اتحاد کے utopia کا اندازہ ہی نہیں۔ ایک بار پھر سے کہہ رہا ہوں کہ ان بلوچ طلباء نے مختلف مفادات اور برائے نام نظریہ پر تقسیم کو اتنا practice کیا ہے کہ وہ بلوچ طلباء کے اتحاد کا utopia تصور ہی نہیں کر پاتے۔ آپ خود سوچ کر دیکھیں اگر یہ اتحاد ممکن ہوتا تو ہر یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کیسے جی رہے ہوتے، وہ کون سے مسئلوں پر باہر نکلتے؟ یونیورسٹی کے اندر وہ اپنی اتحاد کو کیسے practice میں لا رہے ہوتے؟

“بلوچستان” آج ایک مسئلہ ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس کے اندر بڑے چھوٹے مسئلے ہوتے رہیں گے۔ کیا ہر مسئلے پر بلوچ طلباء کو سڑکوں پر نکلنا چاہیئے؟ کیا ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کس مسئلے پر کب اور کیسے نکلنا چاہیئے؟ کیا ہمارے ہر دن کے نکلنے سے مسئلے حل ہو رہے ہیں کس حد تک ہو رہے؟ کیا مستقل حل کو ذہن نشین کر کے اس پر کام ہو رھا؟ کیا collective کیلئے کام ہو رہا یا صرف اپنی تنظیم کی نشوونما، ممبرشپ بڑھانے اور اپنے کچھ محدود مفادات، اور ایک خاص گروہ کےلئے کام ہو رہا؟ پتہ نہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کے مسئلے کون سے ہیں؟ ہم اسٹوڈنٹس کے مسئلے اور قومی مسئلوں میں فرق کر پا رہے ہیں؟ کیا صرف اسٹوڈنٹس قومی مسئلوں کو حل کر پائے گا؟ آج ہر اسٹوڈنٹ سکول سے لیکر کالج یونیورسٹی تک سب بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس بیگواہ کئے جا رہے ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے محرومیت اور اسٹوڈنٹس کا بیگواہ ہونا دو الگ مسئلے ہیں۔ کس پر کب اور کیسے نکلنا ہے اس کا ادراک بلوچ اسٹوڈنٹس کو ہونا چائیے۔

کچھ مسئلوں کے بیچ، میں فرق نہیں کر پا رہا۔ ایک جماعت چہارم کی کتاب میں بلوچ قوم کو زبان پر تقسیم کرنا اور اس پر بلوچ اسٹوڈنٹس کے ساتھ بہت سے مکاتب فکر نے لب کشائی کی اس پر بلوچ طلباء نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر براہوی ٹی وی کے نام سے ایک چینل چل رہا جو براہوی زبان کو قوم بتا کر اس پر مختلف پروگرامز منعقد کروا رہے جو کہ سندھ میں کچھ براہوی بولنے والے دوستوں کو سونپا گیا ہے۔ یہ مسئلہ قوم کا ہے یا صرف قوم کےطلباء کا؟ آج بلوچستان کے سیلیبس میں کیا کیا پڑھایا جا رہا یہ سب کو پتہ ہے، کیا صرف ایک جملہ صحیح کروانے سے تقسیم رک جائے گا، ہم احتجاج کر کے بس اتنا بتا رہے ہیں کہ بھئ یوں کھل کر نا لکھو بلکہ کسی اور شکل میں سیلیبس میں ڈال دیں۔
(ویسے بلوچ قوم اس موڑ پر نہیں کہ اسے کوئی زبان کے نام پر آسانی سے تقسیم کر پائے)۔
کیا بلوچ قوم، بلوچ اسٹوڈنٹس، اسٹیٹ کا narrative اتنے کم وسائل اور کم قوت کے ساتھ کاونٹر کر پائیں گے؟

بلوچستان یونیورسٹی کے harrasement کا مسئلہ دیکھیں تو آج پاکستانی میڈیا اس کو کوریج دے رہا، تب شبہات نے جنم لینے ہی ہیں کیا UoB کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے؟ (آج یہ ایک فوجی چھاونی کی سی ہے، جہاں یہ فوجی ہیں وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔) دیکھا جائے تو UoB کے طلباء نے پہلے ہی اسharrasement کی نشاندہی کی لیکن اس وقت ایف آئی اے کیا کر رہا تھا جو آج فرصت مل گئی۔ بہرحال اس ڈرامے کے پیچھے کچھ تو ہے۔
میرا سوال بلوچ طلباء سے اتنا ہے کہ وہ UoB کے مسئلے اور حانی بلوچ کے harrasement میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟ کیا UoB کا مسئلہ بلوچ طلباء کی مرہون_ منت ہے جو آج پوری میڈیا دکھا رہی؟ کیا حانی بلوچ اسٹوڈنٹ نہیں؟ کیا انکا ہراساں کرنا کچھ بھی نہیں؟ کیا انکو ڈرانا بلیک میل کرنا کچھ بھی نہیں؟

بلوچ طلباء کا ہر مسئلے پر سڑکوں پر نکلنا موقع پرستی نہیں؟ اپنی تنظیم اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے؟ انکے مستقل حل پر کیوں نہیں سوچا جاتا؟ اس کے مستقل حل کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ مستقل حل پر کام کیوں نہیں کیا جاتا؟ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر احتجاج کرنا شاید ان پر کچھ حد تک کام کیا جائے غور کیا جائے پر ان سب کا دور رس کوئی فائدہ نہیں،بس وقت اور انرجی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آج بلوچ اسٹوڈنٹس کو محدود مسئلوں کے گھیرے میں رکھا ہوا ہے۔

آج میرا یہ سب لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اتحاد ہی ہمارے مسئلوں کا حل ہے۔ لیکن کون سا اتحاد کیسا اتحاد؟ کس بنیاد پر اتحاد؟اپنی پوری انرجی اگر اس پر لگا دیں تو بلوچ طلباء بہت آسانی سے اتحاد کی طرف جا پائیں گے۔
آج بس اتنا سوچیں کہ اگر اتحاد ہو تو ہر یونیورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس کیا اور کیسے practice کر رہے ہونگے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔