بلوچ سرمچاران اور قابض افواج میں فرق
تحریر: نوروز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دوستوں جب بات قابض کی ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کئی ایسے اقوام ملتے ہیں جو کئی سالوں سے اپنی آزادی کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ جیسے کہ فلسطینی، کشمیری، سندھی اور بلوچ۔ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے سرزمین پر اسرائیل نے زبردستی قبضہ کرکے رکھا ہے اور انکی تنظیم حماس اس قبضے سے چھڑانے کے لیئے جنگ لڑ رہی ہے۔ کشمیریوں کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ اپنے آزادی کی جنگ بھارت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
لشکر طیبہ کا سربراہ حافظ سعید جو پاکستانی فوج کے چھاونیوں میں بیٹھ کر انکے کہنے پہ نہ صرف کشمیر بھارت میں بلکہ افغانستان میں بھی معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد کے نام پر بے روزگار نوجوانوں کو پیسے دیکر قتل کروا رہا ہے، اسکا واضح ثبوت 2008 میں تاج محل ہوٹل میں جہاد کے نام پر اجمل قصاب اور اسکے ساتھیوں سے قتل کروانا، ان حملوں میں کم از کم 270 معصوموں کی جانیں گئیں اور کئی زخمی ہوگئے۔ اسکے علاوہ افغانستان میں بھی طالبان جیسے دہشتگردوں سے معصوم لوگوں کو قتل کروانے میں انکا بڑا ہاتھ ہے۔
اب آتے ہیں اپنے مقصد کی طرف، اب پاکستانی افواج اور بی ایل اے سرمچاروں کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں کہ ایک قابض اور وطن کے بیٹوں کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے، وہ ذرا نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جو چور ہوتا ہے انکو ایمان نہیں ہوتا اب یہاں پاکستان کا بھی مثال کچھ اس طرح سے ہے 1948 سے بلوچستان پر قبضہ جما کر بلوچستان کے معدنیات کو پاکستان بے دردی سے لوٹ رہا ہے اور شروع ہی دنوں سے بلوچ مزاحمتکاروں کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بلوچ اپنے مادر وطن کے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں۔
پاکستان بلوچستان کے قدرتی چیزیں لوٹنے کیلئے بلوچوں کا بے حساب خون بہا رہا ہے، جب پاکستان نے دیکھا کہ اب بلوچستان میں ہر جگہ شکست مقدر بن گیا ہے اور بلوچ دھرتی کے بہادر بیٹے ہر محاز پر پاکستانی افواج کو شکست سے دوچار کر رہے ہیں، تو اس نے گوادار کو چین کے حوالے کیا اور چین کو بھی بلوچ سربازوں نے پہلے ہی وارننگ دی کہ اگر گوادار پر اپنے ناپاک قدم رکھا تو تمہارا حال بھی پاکستان جیسے ہوگا، مگر چین نے اسے سیریس نہیں لیا اسے غرور تھا اپنے طاقت پہ اور اپنے سپر پاور ہونے پہ جو کہ دنیا کا تیسرا بڑا سپر پاور ملک ہے، مگر اس قابض کافر آور اسلام کے دشمن کو کیا پتہ تھا کہ جو حق پہ لڑتے ہیں انکی مدد میرا رب کرتا ہے اور انکی حفاظت بھی وہی کرتا ہے، وہ سپر پاورں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
جب چین گوادار میں داخل ہوگیا تو میرے وطن کے سربازوں نے اللہ پاک کا نام لیکر ان پر ٹوٹ پڑنا شروع ہوگئے، آہستہ آہستہ ان پہ بھی حملے کرتے رہے اور آج میرے رب کا شکر ہے کے اس قدر چین کو ہمارے فدائی ساتھیوں نے خوف زدہ کیا ہے کہ اسکا پاکستان کے اوپر سے بھروسہ بھی اٹھ گیا ہے۔ اب وہ عام بلوچ سے بھی خوفزدہ ہوگیا ہے۔ اس لیئے اس نے یہ مانگ کیا ہے پاکستان سے کے بلوچوں کو گوادار سے نکالو اور اس نے اپنا کام بھی بند کیا ہے۔
پاکستانی افواج بلوچستان میں بلوچ معدنیات کو لوٹنے کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں، بلوچ اپنے سرزمین کو بچانے کے لیئے اور قابض سے آزادی لینے کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کے سپاہی اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ ایک ہی ونگ میں رہ کر ہر طرح کے عیش و آرام کے باوجود بھی ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں، ریٹائرمنٹ نہ ملنے کی صورت میں زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں۔ مگر بلوچ سپاہی اپنے مادر وطن کے آزادی کی خاطر پہاڑوں میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ننگے پیر، گرمیوں میں گرم دھوپ میں اور سردیوں میں سخت ٹھنڈ میں اپنے مادر وطن کیلئے دشمن سے ہر وقت لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے سپاہی جہاں بھی جاتے ہیں کم از کم 4/ 5 ایک ساتھ جاتے ہیں وہ بھی دن کے وقت رات کو اکثر باہر نہیں نکلتے ڈر کے مارے کے کوئی مارے نہ ہمیں، مگر بلوچستان کے محافظ اکثر پہاڑوں میں ویرانیوں میں اکیلا گھومتے ہیں اور اکثر رات کو اپنا کام سرانجام دیتے ہیں، رات کو ہم سب جب سو جاتے ہیں تو بلوچستان کے سرباز اس وقت بلوچستان اور بلوچ دھرتی کے دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور سویرا ہونے تک اپنے اپنے ٹھکانوں پہ پہنچ جاتے ہیں۔
پاکستانی افواج کے آفیسرز بے ایمانی کر کے لوگوں سے پیسے زبردستی چھین کے آپریشن میں لوٹ مار کرکے اور بلوچ فرزندوں کا اغواء کرکے ان سے پیسے لیکر اپنے بیٹوں اور گھر والوں کو عیاشی کرواتے ہیں، انکے پیسوں سے انکے بیٹے شرآب نوشی کرکے غریبوں کو مار مار کر بڑے ہوتے ہیں۔
مگر بلوچ سپریم کمانڈرز کے بیٹے بھی اس محاذ میں(آزادی کی لڑائی) میں اپنے دوسرے بلوچ بھائیوں کے ساتھ ملکر لڑ رہے ہیں، جیسے استاد اسلم بلوچ کے بیٹے، کمانڈر اللہ نظر کے بیٹے اور کمانڈر سرفراز بنگزئی کے بیٹے وغیرہ وغیرہ اور جب بھی قربانی کا وقت آتا ہے تو کمانڑر اپنے بیٹے کو آگے قربانی کیلئے بھیجتا ہے باقی سپاہیوں کو اسکے بعد جیسے کے شہید استاد اسلم بلوچ نے ریحان جان کی قربانی دیکر سب کو ایک پیغام پہنچایا۔
جیسے کے سرفراز بنگلزئی نے اپنے بیٹے فیصل جان کی قربانی دی نرمک کے مکان پر، جب فوج نے سرمچاروں کو مکمل گھیرے میں لیا ہوا تھا تو شہید فیصل جان نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ملکر اپنے ساتھیوں کو با حفاظت نکال کر اپنی جان قربان کر دی۔
پاکستانی فوج جب بھی کوئی آپریشن کیلئے جاتے ہیں تو سب سے پہلے سپاہیوں کو بھیجتے ہیں تاکہ جب بھی کوئی یا کہیں سے بھی حملہ ہو مرے سپاہی اور ہم بچ جائیں اور نام بھی ہمارا ہو۔
مگر بلوچ سرباز جہاں بھی حملے کیلئے جاتے ہیں تو سب سے آگے کمانڈر ہوتا ہے اور پہلا گولی بھی وہ چلاتا ہے، اگر کہیں سے اچانک حملہ بھی ہوتا ہے تو کمانڈر چاہتا ہے کہ انکے سپاہیوں کی جگہ پہلی گولی اسے لگے اور جب بھی کوئی بیٹھک پہ (کیمپ ) حملہ ہوا ہے تو کمانڈر نے اپنے ساتھیوں کو نکال کر خود کی قربانی دی ہے، جیسے کہ کمانڈر شہک جان بلوچ
پاکستانی فوج پہ جب بھی حملہ ہوتا ہے تو انکی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں بچ جاوں یا بھاگنے کا جس کو موقع ملا بھاگ جائیگا، اپنے ساتھیوں کو موت کے منہ میں چھوڑ کر یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں بچ جاوں باقی ساتھی اگر مریں تو مرجائیں۔
مگر بلوچ محاذ کے سپاہیوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے میں قربان ہوجاوں، باقی ساتھیوں کو سلامت نکال کر اپنے جان کا انکے لیئے نظرانہ پیش کرکے اپنے ساتھیوں اور مادر وطن کا قرض ادا کرسکوں اور بلوچ فرزند محاذ پہ اپنے حصے کا بھی روٹی اپنے ساتھی کو کھلاتا ہے خود بھوکے سوتا ہے۔
بلوچ دھرتی کو جب بھی قربانی کی ضرورت پڑی ہے تو بلوچ فرزندوں نے کسی بھی قسم کے قربانی دینے سے دریغ نہیں کی ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا نے ہمیں شہید جنرل استاد اسلم بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ جیسے عظیم لیڈروں سے نوازا ہے تو یہ پاکستان تو کیا ایسے ہزاروں پاکستان بھی آئیں، تب بھی ہماری آزادی انشاءاللہ طے ہے، سینکڑوں ریحان اور رازق جیسے فدائی اپنے مادر وطن کے لیئے فدائی ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، صرف اپنے کمانڈر کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔