بلوچستان یونیورسٹی واقعے میں ایک گروہ ملوث ہے – ڈاکٹر نواب

162

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے کہا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں رونما ہونے والے واقعے کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ اس میں منظم گروہ ملوث ہے۔ جنسی ہراسگی صرف بلوچستان یونیورسٹی بلکہ صوبہ سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ وطالبات کو مختلف حیلے بہانے بناکر ہراساں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ خواتین پرتشددسے متعلق صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل پرمکمل عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی اور بیوٹمز سمیت صوبہ بھر کے تمام بڑے تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات کی تحقیقات کرکے ملوث عناصر کو سخت سزا دیا جائے۔

یہ بات انہوں نے پیرکے روزکوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹراعجازبلوچ، ڈاکٹرزکیہ، اشفاق بلوچ، زہرہ بلوچ و دیگر بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں طلباء وطالبات کو ہراساں کرنے کے اسکینڈل کامعاملہ صرف وائس چانسلر کا نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا گروہ کارفرما ہے۔ وی سی کو برطرف کرنا مسئلے کاحل نہیں ایک فرد کو موردالزام ٹھہرانا دیگر کرداروں کو احتساب کے عمل سے دانستہ طور پر بری الزمہ قرار دینا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں سال شعبہ جرنلزم کے طلباء نے ہراسگی سے متعلق اپنے شعبے کے سربراہ کو درخواست دی تاہم اس پرعملدرآمد نہیں کیا گیا۔ جامعہ میں یواوبین کے نام سے تنظیم بناکر طلبہ سیاست پر پابندی کرنا بنیادی حقوق کو صلب کرکے ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے دائرہ کار میں آتا ہے آئینی طور پر بلوچستان کے تمام اختیار صوبائی حکومت کومنتقل کئے جائیں، وائس چانسلر سمیت جنسی ہراسگی میں ملوث تمام ملزمان کا اوپن ٹرائل کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے، جامعہ بلوچستان میں چیکنگ و سیکورٹی کے نام پرطلباء کی تذلیل بند کرنے، سیکورٹی معاملات کی دیکھ بھال کیلئے پولیس فورس کو تعینات کرنے اور طلباء یونین کے سرکل پر عائد پابندی ختم کرنے اورطلباء کوآئینی حقوق تفویض کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر کسی صورت خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کے تمام راستے استعمال کرتے ہوئے مظاہرے، ریلیاں اور سیمینار منعقد کرنے سمیت صوبائی محتسب بلوچستان سے بھی رجوع کریں گے۔