بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بلوچستان یونیورسٹی واقعے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبر و تذلیل کی داستانیں نئی نہیں ہیں۔ یہ جبر و تذلیل کے مسلسل واقعات کی ایک کھڑی ہے۔ یہ صرف بلوچ قوم کے عزت پر نہیں بلکہ انسانی شرف پر حملہ ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ قابض کی ہر ممکن کوشش ہے کہ بلوچ تعلیم سے دور رہے۔ بلوچستان کے بیشتر اسکولوں پر فوج براہ راست قابض ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی ایک باقاعدہ فوجی چھاونی بنائی جاچکی ہے۔ یہ ایک نازی کیمپ سے کمتر نہیں۔ سینکٹروں کی تعداد میں فوجی اہلکار تعینات ہیں جن کا کام طلبا کی ذہنی اذیت اور تذلیل ہے۔ یہ کام ایک عشرے سے زائد سے ہو رہا ہے۔ طلبا و طالبات شدید ذہنی و نفسیاتی دباو کے باوجود حصول علم کے لئے ان مشکلات سے نمٹ رہے تھے۔ ایک یونیورسٹی کو ایک چھاونی اور ٹارچر سیل میں تبدیل کرنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ بلوچ اس جبر کے سامنے ہتھیار ڈال کر تعلیم کو خیر باد کہہ دیں۔ جب بلوچ طلبا کی عزم و ہمت نے ریاست کے تمام حربے ناکام بنا دیئے تو جبر کے سلسلے میں اجتماعی بے عزتی کا ناقابل بیان اور غیر انسانی پہلو شامل کردیا گیا۔ بلوچ قوم کی عزت سے کھیلنے کے گھناونے حرکت نے ہماری غلامی مزید عیاں کردی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بخوبی احساس ہے کہ اس تذلیل آمیز ماحول میں تعلیم کا حصول جاری رکھنا نہایت مشکل ہے۔ میں پہلے ہی اس بارے میں گزارش کرچکا ہوں کہ بلوچ طلبا کیلئے قابض اس نوآبادیاتی تعلیم کا حصول مزید مشکل کردے گا لیکن ہمیں قابض کے تمام حربوں کا مقابلہ کرکے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا چاہیئے۔ مجھے فخر ہے کہ بلوچ طلبا نے قابض کے اس گھناونے اور ذلت آمیز حربے کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے جرات کا مظاہرہ کیا اور قابض کے چہرے کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کردیا۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ غلامانہ سماج میں آقا کے ہاتھوں ہراساں ہونا تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب تک کوئی قوم اپنی ایک الگ ریاست کا مالک نہیں ہوتا وہ اسی طرح ذہنی، جسمانی یا جنسی طور پر ہراساں ہوتا رہے گا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمرے لگا کر ہماری بلوچ بیٹوں کی تذلیل کی گئی ہے۔ اسے ہم ایک مخصوص واقعے کے بجائے اجتماعی تذلیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس کا بدلہ صرف اور صرف دشمن سے مقابلہ ہے۔ اس واقعے سے نئی نسل کو اخذ کرنا چاہیئے کہ بلوچستان پر قابض قوتوں نے ہمارے لیے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ اس کے خلاف مزاحمت کرنا تمام طلبا و طالبات کا اولین فریضہ ہے۔ وہ جس جرات کا مظاہرہ کرکے سڑکوں پر نکلی ہیں، اسے مزید منظم کرکے اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہیئے۔ قومی غلامی کا احساس آگاہی و تعلیم سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کیلئے پہلے بلوچ طلبا تنظیموں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی اور تمام رہنماوں اور سرگرم اراکین کو شہید کیا گیا یا پابند سلاسل کیا گیا، جو ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ظلم، جبر اور تشدد سے تعلیم کا راستہ روکنے میں ناکامی کے بعد حالیہ کیمروں کی تنصیب کا غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل دہرایا گیا۔ یہ بلیک میلنگ یقیناً ایک شخص یا ایک واحد اہلکار کی سازش نہیں بلکہ یہ ایک ریاستی سازش ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بلوچ اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھیں۔ اگر اس واقعے سے ایک بھی بلوچ بیٹی نے تعلیم چھوڑ دی تو قابض ریاست اپنی کامیابی کا جشن منائے گا۔ لیکن بلوچ طلبا بشمول سماج کے تمام باشعور لوگوں کو تعلیمی اداروں میں موجود فوج کی موجودگی کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگا۔
آزادی پسند رہنما نے کہا کہ یہ واقعہ قابض کا آخری حربہ نہیں ہے بلکہ وطن کی آزادی تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ طلبا کو اپنی تنظیموں کو منظم کرکے تعلیمی میدان میں کوششیں جاری رکھنا چاہیئے۔ اس میدان کو دشمن کیلئے خالی اور آسان نہیں بننے دینا ہوگا۔