متعدد طلباء کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی کے طلباء نے بدھ کو مسلسل 17 ویں دن بھی اپنا احتجاج جاری رکھا۔
احتجاج کرنے والے طلباء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سابق وائس چانسلر سمیت اس معاملے میں مبینہ طور پر ملوث دیگر مشتبہ افراد کو گرفتار کریں۔ انہوں نے طلبہ یونین کی بحالی اور یونیورسٹی میں ایف سی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے یہ کیس گذشتہ ماہ اس وقت منظرعام پر آیا جب بلوچستان ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایت کی تھی کہ وہ یونیورسٹی میں طلبا کو ہراساں کیے جانے کی اطلاعات کی تحقیقات کریں۔
سماجی کارکن جبران ناصر نے آج بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء کے احتجاج میں شرکت کی جبکہ ان کے ہمراہ وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کی جلیلہ حیدر اور دیگر افراد موجود تھے۔
جبران ناصر نے طلبہ میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور یونیورسٹی میں طلبہ کی تنظیموں سے طلبا یونین کی بحالی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ شامل ہونے کی اپیل کی۔
واضح رہے منگل کے روز، ایف آئی اے نے بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے الزامات کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو پیش کی تھی۔
ایف آئی اے نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل سے درخواست کی کہ وہ تحقیقات مکمل ہونے تک رپورٹ کو عوامی نہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے اس درخواست پر اتفاق کیا۔
تاہم بلوچستان ہائی کورٹ کے اعلیٰ جج نے اس اسکینڈل کے بارے میں حزب اختلاف کے ممبروں کے مطالبے پر اسمبلی کے اسپیکر میر عبد القدوس بزنجو کی تشکیل کردہ بلوچستان اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے ممبروں کے ساتھ رپورٹ شیئر کی۔ چیف جسٹس نے رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارے صوبے کا معاملہ ہے ، یہ ہمارے بچوں کا بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنے کا معاملہ ہے۔
لوگوں اور سیاسی جماعتوں کو قومی اداروں پر پختہ اعتماد رکھنا چاہئے۔ جن لوگوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ویڈیو اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پوری بورڈ پر کارروائی کی جائے گی۔