بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور نیشنلسٹ قوتوں کی قومی ذمہ داریاں
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان یونیورسٹی میں واضح ہونے والے اسکینڈل کی تفصیلات ہرگز حیران کن نہیں کیونکہ 2008 میں خصوصی طور پر اسے ایک منی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کو چھاونی میں تبدیل کرنے کی روایت ہرگز نئی نہیں بلکہ یہ نوآبادیاتی پالیسیوں کی وہ غلیظ حقیقت ہے جو گذرتے وقت کیساتھ واضح ہوتی جارہی ہے۔ اجتماعی طور پر اگر ایک تجزیہ کیا جائے تو نوآبادیاتی نظام ایک طوائف الملوکی کی غلیظ ترین صورت ہے، یہ مصنوعی ریاست ایک بروتھل سے کسی صورت کم نہیں جہاں دیسی باشندوں کی حیثیت کسی جنسی غلام سے بھی کم رکھی گئی ہے۔
فوجی آپریشن کی صورت میں قتل عام، غیر قانونی گرفتاریوں سے لے کر غیر انسانی اذیتوں سے شہید کرنے تک، گھروں میں گھس کر چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے اور خواتین تک کو اغوا کرنے سے لے کر ان کو جنسی طور پر بے حرمتی تک کونسے حربے ہیں جو آزمائے نہیں گئے ہیں؟ اب اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان تمام حقائق سے آنکھیں پھیر کر ہم خود کو دھوکے میں رکھیں۔
بی ایس او آزاد پر پابندی لگا کر طلبا سیاست پر جس طریقے سے وار کیا گیا اس کا واضح مقصد اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل تھا اور آج جو خلاء پیدا ہے اس کے نتیجے میں بلوچستان یونیورسٹی جیسا اسکینڈل ہمارے سامنے ہے۔
دوسری جانب بی ایم سی کے بلوچ طلباء کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچ کو غلامی کا یقین دلایا جائے۔
اس کے مقاصد مختلف ہیں، اول تو ایک ایسی نفسیات انجیکٹ کرنا جو نہایت ہی موقع پرست و منافقت سے بھرپور ہو اور کسی جائز کام کے لیے ناجائز حدیں بنانا۔ چند نمبروں کی خاطر جنسی طور پر حراساں کرنے سے ایک تو نفسیاتی طور پر بیمار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب بلوچ کو بالخصوص تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی مکروہ سازش بھی ہے۔
بلوچ طلباء سیاست پر قدغن کا مقصد ہی یہی تھا کہ بلوچ کو سیاسی شعور سے دور رکھا جائے، بی ایس او کے دوبارہ ابھار کی صورت میں فورآ ہی لیڈرشپ کو اغوا کرکے خوف کی صورتحال پیدا کی گئی۔ جہاں سیاسی شعور ہو وہاں تعلیمی ادارے اس طرح کے گہناونے حرکتوں کے لیے استعمال نہیں ہو پاتے۔ لیکن جہاں نوآبادیاتی نظام رائج ہو وہاں اس سے بھی مزید گھنائونے حرکتیں ہوتی ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی ایک منی چھاونی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور اس کو چھاونی میں بدلنے سے روکنے کے لیے ہم کوئی کردار ادا کرنے سے ناکام رہے۔
بی ایم سی میں جس طرح بلوچ بہنوں کیساتھ ناروا سلوک کیا گیا اس پر بھی سوچنا ہوگا۔
اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے ریاست کی پالیسیوں کو کاونٹر کریں تاکہ بلوچ نوجوانوں کے لیے تعلیم کا جو محدود سا ذریعہ ہے وہ بند ہونے کی بجائے بحال ہو۔ اس حوالے سے ایک منظم سیاسی تحریک ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
تمام نیشنلسٹ قوتیں اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور ایک مشترکہ لائحہ عمل کیساتھ سامنے آئیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔