بلوچستان کو نظر انداز کیے جانے کی روش جاری ہے، ایچ آر سی پی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

222

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے اپنے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورہ بلوچستان کے بعد ”بلوچستان: تاحال نظرانداز” کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاسی اعتبارسے، بلوچستان کے ساتھ اب بھی غیرمنصفانہ سلوک برتا جارہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کرغا‏ئب کرنے کا سلسہ جاری ہے، متاثرین کے اہلِ خانہ کے بقول، وہ عام طور پر حکام کو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے بارے میں بتانے سے ڈرتے ہیں۔ اس معاملے کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اورآواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات نہ تورپورٹ ہورہے ہیں اورنہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ مرتب ہورہا ہے۔

ایچ آرسی پی کی تحقیقات سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کوئلے کی سینکڑوں کانیں ایسے لوگ چلا رہے ہیں جن کے پاس کانوں میں حفاظتی اقدامات کرنے یا ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے نہ تو مالیاتی وسائل ہیں اورنہ ہی ٹیکنیکل صلاحیت ہے۔ مشن کو پتہ چلا کہ سیکیورٹی فورسز فی ٹن پیداوار پر سیکیورٹی محصول وصول کرتی ہیں جوسرکاری طورپرلاگو نہیں ہے اور کانوں کے مالکان اور مزدور یونینوں کی نظرمیں یہ بھتہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ آرسی پی سمجھتا ہے کہ فرنٹئرکورکی بہت بڑی تعداد کی بلوچستان میں موجودگی اور صوبے کے معاملات پر بہت زیادہ کنٹرول صوبائی حکومت اورسویلین انتظامیہ کے لیے شدید نقصان کا سبب ہے۔ تعلیمی اداروں جیسے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکیورٹی اہلکاروں کی غیرضروری مداخلت اورمستقل موجودگی بھی ختم ہونی چاہیے۔

ایچ آرسی پی کا یہ بھی ماننا ہے کہ صوبے کے معاملات صوبائی حکومت اور سویلین انتظامیہ کوچلانے چاہیں اوران معاملات میں کسی اورادارے کی ناجائزمداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ، جبری گمشدگیوں کو جرم قراردینے، مجرموں کو سزا دلوانے اورمتاثرین کے خاندانوں کی دادرسی کے لیے فوری طورپرقانون سازی کی جائے۔

یہاں کلک کرکے ایچ آر سی پی کی مکمل رپورٹ تک رسائی حاصل کریں۔