بلوچستان میں تعلیمی نظام ختم کرنے کی نئی سازش
تحریر: اختر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عناصر بلوچ قوم کے تعلیمی نظام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کرنے کی تگ و دو میں ہیں اور ہر روز نئے سازش سامنے آرہے ہیں۔ کچھ دن پہلے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں آدھی رات کو ہمارے بہنوں کو ہاسٹل سے نکالا گیا اور وہ روڈ پہ بیٹھے احتجاج کرتے رہے اور ابھی تک انکے مسائل کا کوئی حل نہیں نکلا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے. یہ خاموشی ایک نسل کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سازش ہے، پہلے سے بلوچستان کے اندر تعلیمی نظام برباد ہو چکے ہیں، کالجز اور سکول پہلے سے بند پڑے ہوئے ہیں.
بلوچستان کے اندر بلوچ قوم دربدر ہیں، زیادہ تر اسٹوڈنٹس کو غریبی نے تعلیم سے دور کیاہواہے اور کچھ اسٹوڈنٹس کے فوٹو ماما قدیر کے پاس گئے، کچھ ٹھوکریں کھاکر یونیورسٹی کے لیویل تک پہنچے لیکن ادھر تعلیمی نظام کچھ نہیں، میں اس کو یونیورسٹی نہیں سمجھتا ہوں، یہ ایک چھاونی ہے ابھی تک لیکن اسٹوڈنٹس نے یہ پروا نہیں کیا، اپنا تعلیم جاری رکھا۔
ان لوگوں نے ایک نیا اسکینڈل لایا، اسٹوڈنٹس کو بلیک میل کرنے کیلئے، پھر بھی بڑے شلوار والے بلوچ ڈر کے مارے خاموش ہیں. ہم نے تو اپنی عزت کو پامال کردیا ہے ہم لوگ تو ڈر کی وجہ سے اپنی بہنوں کی عزت کے تماشی بن گئے ہیں۔
دنیا کے اندر لوگ اپنے نگ و ناموس کیلئے جان دیتے ہیں لیکن ہم ایک معمولی سی نوکری کیلئے اپنے ننگ و ناموس کا سودا کرتے ہیں اور تماشائی بنے ہوئے ہیں یا ہم لوگ چپڑاسی کی نوکری کیلئے اپنے شہیدوں کے خون کا سودا کررہے ہیں جو بہت افسوس کے بات ہے.
وہ لوگ کیا جانتے ہیں تعلیم ، قوم اور عزت کیا بلا ہیں، ان لوگوں نے اپنا عزت اور ضمیر کچھ پیسوں کی خاطر بیچا ہے، وہ کیسے ہمارے عزت کی آواز بن سکتے ہیں؟ لیکن وہ لوگ ریاست کے اندر سیاست کررہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم ایک تعلیم یافتہ educated قوم بن جائے۔ یہ ہاسٹل بند کرنے کا اور یہ اسکینڈل کے زریعے بلیک میلنگ کرنے میں ان لوگوں کے ہاتھ ہیں جو ریاست کے اندر سیاست کررہے ہیں۔
میں یہ مسئلہ vc اور انتظامیہ کی نااہلی سمجھتا ہوں، اس کے پیچھے کچھ اور راز ہیں، ہم لوگ اسلئے خاموش ہیں کہ کچھ دن اور زندہ رہ سکیں، میں یہ سمجھتا ہوں ہم لوگ پہلے سے مر چکے ہیں، بڑی شلوار سے اور لمبی قمیض (جامگ) سے ہمارا عزت محفوظ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ تو بلوچ ہونے سے خارج ہیں کیونکہ شہیدوں کے ماؤں کی آنسؤں کی وجہ سے بلوچ کا نام دنیا کے اندر لیا جا رہا ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی جان کے پروا نہیں کی۔
کچھ اسٹوڈنٹس ابھی تک (جیل) زندان میں اپنے ننگ و ناموس کیلئے اذیتیں سہہ رہے ہیں لیکن ہم تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم قربانی نہ دیں تو ہمارے آنے والے دن ہمارے لئے بہت مشکل اور اس سے بھی بد تر ہوتے جائیں گے۔ ہم تو چپڑاسی کی نوکری کے خاطر اپنے بہنوں کی عزت کا پروا نہیں کرتے تو کیا یہ تاریخ ہم لوگوں معاف کریگا؟
بلوچستان کے اندر تو تعلیمی نظام کو پہلے سے ایک خوف کے ماحول میں تبدیل کیا گیا ہے، کچھ والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں تو ایسے ماحول میں لڑکیوں کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟
آپ کے خیال میں یہ تعلیمی نظام کو ختم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟ بلوچستان کے اندر ایسے بہت سارے مسئلے آتے رہتے ہیں اور ہمیں ان مسئلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے اور ہمیں یہ انتظار نہیں کرنا چاہیئے کہ کوئی اور ہمارے ننگ و ناموس کے پردے کیلئے آئے گا۔.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔