بلوچستان اور سی پیک کی اہمیت
تحریر : میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کے نقشے پہ موجود ملکوں میں سے ایک ملک پاکستان ہے، جو چار صوبوں پر مشتمل ہے جس میں سندھ، خیبرپختون خواہ ،پنجاب اور بلوچستان ہیں بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، انیس سو اکھتر میں ایک کشتی ڈوب گئی تھی جس کا نام بنگلہ دیش تھا جو ایک الگ آزاد ریاست بنا۔
آج میں اپنے مادر وطن بلوچستان پر کُچھ لکھنا چاہ رہا ہوں، جسکی اہمیت کے بارے میں شاید کوئی کمی آئے کیونکہ میں وہ لکھاریوں میں سے نہیں ہوں لیکن جتنا جانتا ہوں وہ لکھ رہا ہوں۔ بلوچستان جو 32 اضلاع پر مشتمل ہے، قدرتی معدنیات سے مالا مال ہےاللہ پاک نے بلوچوں پہ مہربان ہو کر بلوچستان کو مالا مال بنا کر رکھا ہے اس میں قدرتی گیس تیل بجلی کوئلہ کرومائیٹ سونا،چاندی اور تانبا، لوہا اور سنگ مرمر، یورینیئم اور وغیرہ وغیرہ کہ زخیرے پائے جاتے ہیں، وہ جنت جس میں زمین اور آسمان بھی دولت سے سجی ہوئی ہیں اور باقی ملکوں کی نظریں پڑی ہیں۔ بلوچستان پہاڑوں، سمندروں اور دریاؤں، جھیلوں اور کھیتوں پہ مشتمل، سر سبز شاداب ہے اور گوادر پورٹ دنیا کی ایک اہم بندر گاہ پورٹ ہے اور گوادر دنیا کی تیسری نمبر پر ہے جسکی سمندر کی پانی کبھی بھی برف نہیں ہو سکتی کیونکہ سالا سال گرم ہی رہتا ہے، جسکے پارکنگ کی گہرائی 18فٹ ہے جس میں 120جہازیں ایک ساتھ ساز و سامان ڈال کر منزل کو آسانی سے طے کرتے ہیں۔
ایک طرف ہم سی پیک پر اگر نظر ڈالیں گے، آخر سی پیک میں ایسے کیا فوائد ہیں جس میں سب کی نظریں پڑی ہیں تو دوسری طرف سی پیک منصوبہ کیا بلوچوں کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصاندہ ہے؟
چین دنیا کی مضبوط ترین ملکوں میں سے ایک ہے، جس کے پاس کئی نیوکلیئر پاور موجود ہیں اور اُنکا رقبہ کئی کلو میٹر پر مشتمل ہے اور جسکی آبادی ایک سو پینتیس 13500000کروڑ ہے گوادر پورٹ بلوچستان کی سنٹر پوائنٹ بندر گاہ ہے جس میں کئی ممالک بزنس کر سکتے ہیں اگر ہم چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کی بات کریں تو سب سے زیادہ چائنا کا فائدہ ہے۔ لیکن کیا بلوچ قوم اس پروجیکٹ پر راضی ہونگے کیا، بلوچوں کیلئے کامیابی ہی کامیابی ہوگی میرے خیال میں بلوچوں کی کامیابی نہیں،بلکہ اُنکی نسل کشی ہوگی بلکہ ہو رہا ہے گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے اور بلوچوں کو اغواہ کرکے عقوبت خانوں میں لاپتہ کیا جا رہا ہے اور کئی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے تو دوسری جانب بلوچ مزاحمت کاروں کی طرف سے آئے روز حملے ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بی ایل اے کے جانبازوں”مجید برگیڈ” نے یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ اپنی وطن کی دفاع کیلئے کُچھ بھی کر سکتا ہے۔ جان دے سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے تو دوسری جانب بی ایل اے کے فدائیوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ہلا کر رکھ دیا اور 11اگست 2018 کو شہید ریحان جان نے دالبندن کے دل و جان میں چینی انجینئروں پر فدائی حملہ کیا اور بعد میں کراچی قونصل خانے میں مجید برگیڈ کے جانباز رازق،ازل اور رئیس جان اور دوسری طرف گوادر میں پی سی ہوٹل پر مجید برگیڈ کے جان نثاروں نے “زر پھازگ” کے مشن میں حمل، کمانڈو، منصب اور کریم جان نے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ جسکی وجہ سے دشمن کی کمر توڑی گئی اور میں یہ یقیناً کہتا ہوں کہ شہید جنرل استاد اسلم کی بے بہا قربانیوں سے جو سب سے پہلے اپنے لخت جگر بیٹے کو اپنے وطن پر قربان کر دیتا ہے اور ایسے عظیم رہنما کے نشوونما کی وجہ سے جس میں ہزاروں ساتھی جنم لیتے ہیں۔
پاکستان کے کئی تجزیہ نگار بھی اس بیرونی دباو، کو سی پیک کی رفتار کے کم ہو جانے کا سبب سمجھتے ہیں اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل چوہدری کے خیال میں آنے والے وقتوں میں سی پیک پر آئی ایم ایف سے امریکا اور ورلڈ بینک کی وجہ سے بھی بزنس مزید کمزور ہو جائےگا اور انہوں نے بتایا، کہ ظاہر ہے کہ امریکا اور مغربی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اس منصوبے کو مکمل کرے اور مجھے نہیں لگتا کہ سی پیک کامیابی کی طرف گامزن رہے گا اور میرے اندازے سو سے پچھہتر فیصد اُنکی ناکامی ہوچکا ہے اور اب سی پیک ایک مردہ پروجیکٹ کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔