جامعہ بلوچستان اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے- نیشنل پارٹی

120

نیشنل پارٹی کی مرکزی بیان میں کہا گیا کہ وفاقی و صوبائی وومن پروٹیکشن ایکٹ جنسی ہراسگی کے متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے اس میں بنیادی ترامیم کی ضرورت ہے، سیاسی رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک پرائیویٹ بل اس سلسلے میں پیش کیا تھا اور ساتھ میں ایک تعلیمی ادارے میں پیش آنے والے جنسی ہراسگی کے کیس پر کمیٹی اور محتسب کے فیصلے کے برخلاف صدر پاکستان نے یہ دلیل دے کر سزا کو کالعدم قرار دیا کہ متاثرہ خواتین ادارے کا ملازم نہیں ہے اس سے یہ تاثر حقیقت میں گیا کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی ایکٹ متاثرہ خواتین کو انصاف پہنچانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔

نیشنل پارٹی کے پالیسی ونگ جو میر غوث بخش بزنجو ریسرچ سینٹر کے نام سے پالیسی ڈیولپمنٹ کے نام سے کام کررہا ہے انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں رونما ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعات اور خفیہ ویڈیوز ریکارڈنگ کے ذریعے ہونے والے بلیک میلنگ کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی خواتین پروٹیکشن ایکٹ میں ضروری ترامیم تجویز کئے ہیں جنسی ہراسگی کے واقعات ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں روزانہ رونما ہورہے ہیں سندھ و پنجاب کے کئی تعلیمی اداروں میں کیس ریکارڈ ہوئے ہیں لیکن موثر و جامعہ پالیسی و ایکٹ نہ ہونے کے سبب ملزمان آسانی سے بری ہوجاتے ہیں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی میں رونما ہونے والی نمرتا کی خود کشی اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔

نیشنل پارٹی کی پالیسی ڈیولپمنٹ ٹیم نے معروف سماجی تنظیم پلڈاٹ کے اشتراک سے جنسی ہراسگی کے موجودہ ایکٹ بابت  اہم تجاوز پیش کی ہیں،نیشنل پارٹی کے جنسی ہراسگی کے پرائیویٹ بل کو سینیٹر فرحت اللہ بابر کے پرائیویٹ بل کے ساتھ ملا کر سینٹ میں پیش کرئے گا اور ساتھ ساتھ بلوچستان کے ممبران اسمبلی اور اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرکے اس بل کو بلوچستان اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں رونما ہونے والے جنسی ہراسگی پر بننے والی پارلیمانی کمیٹی ایک غیر موثر اقدام ہے،بلوچستان میں پیش آنے والے جنسی ہراسگی کے واقعات پر بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے لہذا اس اہم قومی نوعیت کے ایشو پر ایک بااختیار جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف بلوچستان کی نگرانی قائم کیاجائے جو اس انسانیت سوز اقدامات کے خلاف موثر قانونی کارروائی ہوسکے۔