بلندیوں پر پرواز کرتا آھوگ
تحریر: شہزاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خواب پسند معاشرے کو بیدار کرنا ایسا امر ہے جیسے شیطان کے سامنے کوئی خدا کی وحدانیت بیان کررہا ہو۔ فی زمانہ ہر انسان مصروفیت کے گہرے دلدل میں ایسے دھنس چکا ہے کہ شاہد ہی فُرصت کے لمحات میں اپنے آپ سے بھی کلام کرسکتا ہو۔ سیاست، روزگار، غلامی، جنگ جیسی بے شمار کشمکشوں میں الجھا ہوا ہر نوجوان ایک قوفت کی سی صورتحال میں زندہ ہے۔ یوں تو بہت آسان ہے کسی شاعر کے شعر کو سراہنا یا پھر کسی گلوکار کی آواز پر تعریفیں کرنا لیکن وہ شعر یا پھر وہ درد بھری آواز مصائبوں کے کس سمندر کو پار کرتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے اس بابت شائد ہم میں سے کوئی بھی آشنا ہو اور نہ ہی آشنا ہونے کبھی ضرورت پیش آئی۔
دور جدید میں ایک ریاست کی منظم فوج یا اسکے حمایتی ملکوں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی آزادی کو مانگنے والا انسان کوئی معمولی یا عام نہیں ہوسکتا۔ یہ معاملات جذبوں، ارادوں اور اپنی زمین سے گہرے و فکری رشتے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ غلامی کو تسلیم کرکے زندہ رہنے کا عمل وقتی طور پر بے حد پُرکشش نظر آتا ہے لیکن نہ نظر آنے والی آزادی کے لئے اپنی قیمتی زندگیوں کو قربان کرنا ایک مشکل امر ہے۔
بلوچستان کی تحریک آزادی میں ھزاروں پیر و کماش،نوجوان، بچے اور خواتین کا خون شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ دو دہائیاں گذرنے کے باوجود یہ تحریک آج بھی ریاست کے سامنے کسی سیسہ پلائی دیوار سے کم نہیں۔ ان دو دہائیوں نے ہم سے ہمارے بہت سے قابل رہنما، بہادر طالب علم اور ھزاروں کی تعداد میں آزادی کی راہ پر گامزن شہزادے چھین لئے ہیں۔
کوئی فوج کے سامنے دو بدو محاز پر گولیوں کا شکار ہوا تو کوئی زندانوں میں انسانیت سوز تشدد کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گیا، کسی کو زہر دیکر مارا گیا تو کوئی اپنوں کی جدائی میں دل کے عارضے سے رخصت ہوگیا، کسی نے جنگی حالات و اپنوں کی ناچاقیوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنی ہی جان لے لی۔
بلوچستان کے علاقے مند سے تعلق رکھنے والے بلوچ قومی تحریک کے فرزند و سپاہی نوروز بلوچ عرفی(آھوگ گُل) کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ آھوگ کم عمری سے بلوچ قومی تحریک سے جڑا ہوا ایک سچا اور ایماندار سپاہی تھا۔ وہ پختہ سیاسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں میں سے ایک تھا۔ قلم کو صحیح معنوں میں چلانے کے ہنر سے اس سے زیادہ شائد ہی کوئی واقف تھا۔ سیاسی سرکل ہوں، یا تلار کی وادیوں میں گذرنے والے ناقابل فراموش شامیں، آپسی مجلسیں ہوں یا سوشل میڈیا پر قائم دوستانے، آھوگ گل کو آخری لمحات تک ہر جگہ دیکھا اور پایا گیا۔ وہ جذبات کے درمیان ابھرنے والا ایک سنجیدہ انسان تھا جو زندگی کے تمام زیر و زبر سے اچھی طرح واقفیت رکھتا تھا۔ وقت کی بدلتی تلخیوں کے باوجود آھوگ اپنے جسم کے بہتے ہوئے پسینے اور قلم سے نکلتے ہوئے قیمتی الفاظ سے بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں اپنا حصہ شامل کرتا رہا۔
معمول کی طرح آج صبح بھی جب آنکھ کھلی تو فوراً ہی ہاتھ اپنے فون کی جانب بڑھایا۔ وٹس ایپ چیک کیا تو دوستوں کے بے شمار میسیجز موجود تھے۔ پہلی خبر یہ تھی کہ مند سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوان علی اکبر کی مسخ شدہ لاش مند کی ندی سے برآمد ہوئی ہے، ابھی اس متعلق پڑھ ہی رہا تھا کہ ایک دم آھوگ کی تصویر سامنے آئی، میں واقعی گھبرا گیا تھا۔ موبائل سکرین کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ پڑھ نہیں پا رہا تھا بلکہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا آھوگ بھی جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ؟ یا پھر کہیں آھوگ کی بھی مسخ شدہ لاش تو برآمد نہیں ہوئی؟ اس کمشکش سے نکلا ہی تھا کہ تصویر کے نیچے خبر کچھ اس طرح درج تھی “بلوچی زبان کے شاعر نوروز ولد عبدالستار عرفیت آھوگ گُل نے خودکشی کرلی”۔
یہ پڑھتے ہی میری آنکھیں بھر آئیں اور لبوں نے آنسؤں کو سہارا دیتے ہوئے بس اتنا کہا “آھوگ تو پرچہ چُش کُت یار”۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔