براس سے امید – سلمان حمل

380

براس سے امید

تحریر: سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دو دہائیوں سے جاری بلوچ جدوجہد مختلف اسٹیک ہولڈروں سے ہوتے ہوئے بلآخر جنرل اسلم بلوچ اور دیگر رہنما ساتھیوں کی کاوشوں سے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ یہ عمل یقیناً ایک مدبرانہ فیصلے کا نتیجہ تھا جو حالات اور وقت کی ضرورت تھی۔ جس کی افادیت سے کوئی ذی شعور انکاری نہیں ہوسکتا۔ مگر آج بھی کچھ ایسے سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں جن پر علمی مباحثہ اور عمل کی گنجائش موجود ہے۔ کیا دو دہائی بعد صرف ایک متحدہ محاذ کا ہونا شہدا کے ارمانوں اور قوم کے قربانیوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟ یا مزید بہتری لانے کی گنجائش موجود ہے؟ براس جس کے بارے میں اکثر یہی رائے دی جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں بلوچ کی ایک منظم فوج کی صورت اختیار کرے گا۔

مگر آج ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال لازماً کرنا ہوگا کہ ہم عملی طور پر واقعی ایک متحدہ محاذ سے قومی فوج یا عسکری قوت بننے کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ مراحل ارتقائی مراحل ہوتے ہیں۔ مگر جو لوازمات اور ضروریات ایک قومی فوج کے ہوتے ہیں ان پر کس قدر ایمانداری سے کام ہورہا ہے؟

یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے۔ اگر اس اہم سوال کے جواب کو تلاش کرنے لگیں گے تو ہمیں سب سے پہلے عسکری قوت یعنی کہ قومی فوج کے تخلیقی مراحل کے بارے میں جاننا ہوگا کہ کیسے کب اور کس طرح ایک قومی فوج تشکیل دی جاتی ہے۔

آج سے بیس سال پہلے ہم نے جس گوریلا جنگ کا آغاز کیا تھا وہ محدود پیمانے پر جذبہ وطن دوستی پر تھا، جو آہستہ آہستہ پھیلتا گیا ۔ کاہان سے ہوتے ہوئے ڈیرہ بگٹی، سروان، جھالاوان، اور رخشان سے مکران تک آن پہنچا۔

یہ گوریلہ دستے ایک نظریے کے پابند تھے، وہ نظریہ قومی آزادی کا تھا، طریقہ کار میں تفریق کے ہوتے ہوئے بھی ان دستوں میں ایک شئے مشترک تھا، وہ تھا قومی آزادی۔ اور قومی آزادی کا تپش جوں جوں بڑھتا گیا تو اس کے لوازمات اور ضروریات بڑھتے بڑھتے آج اس مقام پر پہنچ گئے کہ ایک مضبوط اور منظم قومی فوج کی ضرورت پیش آئی۔

اب جب ہم ایک قومی فوج کی بات اور تصور کررہے ہیں تو اس کیلئِے یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی فوج مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے ایک مدبر قیادت کے فیصلوں سے ایک قومی عسکری قوت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جنگی ماہرین اس عسکری قوت کو ایک مشین سے تشبیہہ دیتے ہیں، جو مختلف پُرزوں پر مشتمل ہوتے ہوئے بھی ایک ہی نتیجہ دیتا ہے۔ یہ فوجی قوت ان تمام مراحل میں شامل دستوں پر انحصار کرتا ہے جو ایک قومی فوج کی تشکیل میں کردار ادا کررہے ہوتے ہیں یعنی کہ یہ مشین (قومی فوج) مختلف پُرزوں کی مدد سے تیار ہوتی ہے اور اس مشین عسکری قوت میں تمام پُرزوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ قومی فوج تیار کرنے کا پہلا مرحلہ ہے جسے براس کی قیادت نے بظاہر انجام دیا ہے مگر اب بھی اس میں مزید پُرزوں کو جوڑنے کی گنجائش موجود ہے۔

جبکہ دوسرا مرحلہ ایک معاشرے کا قیام ہے، جس میں رہنے والے لوگ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ واقعی ہمارے نظریات اس معاشرے کو نئے سرے سے تشکیل دینے میں مددگار ہے اور ان کیلئے راہِ نجات ہے اور یہ بھی ذہن نشین کرنا ہے کہ ہمیں افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسائل بھی اسی معاشرے سے حاصل کرنے ہیں۔ یہاں ایک چیز کا اضافہ ضرورت ہیکہ ہمارے رویے اس معاشرے کی آزادی اور بہبود کیلئے کیا ہیں؟ اور ہم کس حد تک اپنے لوگوں کو اپنے نظریات کے ساتھ متفق کرسکتے ہیں یا کیئے ہوئے ہیں؟ ہمارے تمام قوت کا دار و مدار اسی سماج پر ہوتا ہے اگر اسی سماج نے ہمارے نظریات کو رد کیا تو ہم کیسے اس سماج میں ایک عسکری قوت اُبھار سکیں گے یہ سوال انتہائی اہم ہے اور اس پر سوچنا بھی ضروری ہے جو ایک قومی فوج تشکیل دینے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

جبکہ تیسرے مرحلے میں وسائل آتے ہیں، جب آپ ایک قومی فوج تشکیل دیں گے تو یقیناً آپ کو بے تحاشہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اس وقت وافر مقدار میں افرادی قوت ہے مگر عسکری وسائل مالی ذرائع اشیائے خورد و نوش، یہ بھی تو ضروری ہیں اگر آپ کے پاس افرادی قوت ہو اور ان افرادی قوت کو زندہ رکھنے کیلئے خوراک نہ ہو تو فوجی قوت تشکیل دینا کُجا انہیں اپنے ساتھ وابستہ رکھنا ناممکن ہے ۔ اگر آپ کے پاس اشیائے خوردنوش ہوں خوراک پیدا کرنے کے ذرائع ہوں۔ مگر جنگی وسائل نہ ہوں، جن کے ذریعے آپ افرادی قوت کو دشمن کیخلاف متحرک کرتے ہیں، ظاہر سی بات ہے سامنے جدید ہتھیار سے لیس دشمن پاکستان اور چائنا کے فوجی دستے اور ایک طرف براس کی افرادی قوت محدود وسائل جو نہ ہونے کی برابر ہوں آپ اپنے کو قومی فوج نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی دشمن کاری ضرب لگاسکتے ہیں، یہ الگ بات ہیکہ روایتی انداز میں چھوٹے موٹے معرکے سر انجام دینگے۔ مگر دنیا کے تمام اقوام و ممالک کی جانب نظر دوڑائی جائے تو انہوں نے قومی فوج تشکیل دینے میں اپنے تمام تر کوششیں وسائل پر صرف کی ہیں۔ تو ہمیں بھی اس جانب توجہ مبذول کرنا ہوگا اور وسائل کے بندوبست کیلئے ابھی سے سرتوڑ کوششیں کرنے ہونگے تاکہ قومی فوج تشکیل دینے میں آسانی ہو اور موقع ہاتھ سے نہ جائے۔

چوتھے مرحلے میں سب سے اہم قیادت آتا ہے۔ جو اس قومی فوج کو تشکیل دینے اور متحرک کرنے میں کردار ادا کرسکے۔ نااہل قیادت موثر افرادی قوت اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی اپنے حدف کو حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی لیئے ضروری ہے کہ ایک باصلاحیت اور اہل قیادت ہو جو محدود وسائل اور محدود افرادی قوت کے ساتھ سخت سے سخت اہداف کو نشانہ بنا کر حاصل کرسکے۔ ایک باصلاحیت قیادت ہی اپنے فیصلوں سے حالات کا رخ موڑ کر انہیں حق میں استعمال کرتا ہے۔ ایک قومی فوج کی تخلیق و تشکیل میں قیادت پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ قومی فوج میں قیادت بہت ساری ذمہ داریاں اپنے سر لیتا ہے۔ مستقبل کیلئے منصوبہ بندی، وسائل کی تلاش و بندوبست، فکری و نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ جنگی تربیت، اور متحرک جنگی ٹیم ورکوں کے ساتھ ساتھ داخلی و خارجی تعلقات کے ساتھ عوامی روابط بھی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک گروہ کی سیاسی و فکری تربیت کے بعد وہ دوسرے گروہ کی سیاسی و فکری تربیت کا آغاز کرتا ہے۔ اس کیلئے ابھی سے براس میں شامل اسٹیک ہولڈروں کو سوچنا ہوگا اور اپنے صفوں میں شامل ساتھیوں کو بروئے کار لانا ہوگا اور انہیں ذمہ داریاں سونپنے کے ساتھ ان کی نگرانی کرنا ہوگا تاکہ آنے والے دنوں میں براس کو قومی فوج کی شکل دینے میں قیادت کی کمی محسوس نہ ہو۔

کیونکہ آج ہمارے پاس کل سے زیادہ افرادی قوت ہے۔ محدود پیمانے پر وسائل ہیں۔ ملٹی ٹیلنٹڈ جوان ہیں جن سے سیاسی، فوجی، سفارتی، تیکنیکی ، اور میڈیائی کام لیا جاسکتا ہے اور ان نوجوانوں کے صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ان سے تحریک کی مفاد میں کام لیا جاسکتا ہے۔ یا نہیں یہ براس سے وابستہ لیڈرشپ پر انحصار کرتا ہے۔

آج بھی بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ پاکستان سے دلبرداشتہ ہیں، جن میں طلبا اور پسے ہوئے طبقات سر فہرست ہیں۔ کیا ہم اپنے فیصلوں سے ان کو یہ باور کرانے کیلئے تیار ہیں کہ انکی دلبرداشتگی کی وجہ قومی غلامی ہے اور اس غلامی کیخلاف مزاحمت ہی بہترین اور موثر راہ ہے یا نہیں۔ بلوچ شہدا کے شہادتوں نے تو آج میدان کو آپ کیلئے گرم کر رکھا ہے ضرورت مستفید ہونے کی ہے۔
اور جبکہ میدان میں سیاسی خلا سے پاکستان پرست پارٹیاں اپنے اُلجھے اور کھوکھلے نعروں سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور اس خلا کو پُر کرنے کیلئے بھی از سر نو حکمت عملیاں مرتب کرنے ہونگے۔

ان دلبرداشتہ نوجوانوں کو ایک سمت متعین کرکے دیں گے تو یہ نوجوان قومی تحریک میں دستہ اول کی کردار اد کریں گے کیونکہ ان نوجوانوں میں مزاحمت کی سوچ تو سرے سے موجود ہے مگر اسے کریدنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ مزاحمتی سوچ زنگ آلود ہوچکا ہے۔ جسے نکھارنے کی ضرورت ہے اور ہم تب اس سوچ کو نکھار سکتے ہیں جب وہ ہم کو اپنے درمیان پا ئینگے۔

آج بھی قوم کے اندر دانشور اور فلاسفر موجود ہیں، جن کو اپنے ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے، بصورتِ دیگر نہ فلاسفر کام آسکیں گے اور نہ سپاہی۔ بقول لینن ایک مجرد فلسفہ اور ایک مجرد عمل دونوں نا مکمل ہیں۔ ہمیں انکے درمیان اکائی تلاشنا ہوگا وگرنہ دانشوروں اور سپاہیوں کے درمیان یہ خلیج وسیع تر ہوگا نہ صرف وسیع تر ہوگا بلکہ اس خلیج کے اثرات ہمارے سماج اور قومی تحریک پر بھی پڑیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ براس کو دانشوروں، ادیبوں، مفکروں، مورخوں اور قومی سپاہیوں کے درمیان ایک پُل تلاش کرنا ہوگا۔ تاکہ قومی تحریک کو مزید وسعت کے ساتھ علم و عمل سے ہم آہنگ کر سکے جو آنے والے قومی فوج کیلئے مفید ہوگا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں اور قوم کو یہ باور کرانا ہوگا اصل سیاسی قوت بندوق کے بیرل سے پیدا ہوتی ہے جسے بعد میں علمی و کتابی اور سماجی شعور سے لیس کرنا ہوگا۔

اس دفعہ نوجوانوں کی امیدیں براس کی لیڈرشپ سے وابستہ ہیں، اگر براس نے کچھ نہیں کیا تو نوجوان خود اپنے زورِ بازو سے کسی کا انتظار کیئے بغیر خود یہ عمل سر انجام دیں گے اور ایک قومی فوج کی تشکیل اب کے بار ناگزیر ہوچکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔