ان ماؤں اور بہنوں کی آہ کو سمجھنا ہوگا – ھونک بلوچ

373

ان ماؤں اور بہنوں کی آہ کو سمجھنا ہوگا

تحریر: ھونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں آنسو، سسکیاں، بے بسی اور لاچاری اور جبر ہی جبر نظر آتی ہے، کہتے ہیں جس معاشرے میں انصاف کا فقدان ہوں اورنا انصافی عروج پر ہو، وہاں یہ سب کچھ پائے جاتے ہیں۔ زندگی کے ہر طبقے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ریاستی جبر کا شکار ہورہےہیں، اگر کسی قوم کو ذہنی غلام رکھنا چاہتے ہو، اس سے بہتر فارمولا اور کچھ نہیں ہوتا۔

حال ہی میں کوئٹہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلبا اور طالبات کے ساتھ جو واقعہ رونما ہوا ہے، انکی بے بسی کو دیکھنے کی کوشش کریں، تو مجبوری کی وہ حد نظر آتے ہیں، کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ لیکن کہتے ہیں تبدیلی لانے والا زیادہ تر نوجوان باشعور طبقہ ہے، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت وہ درد اور تکلیف کی آہ کو جلدی محسوس کرتے ہیں، مگر جب بے بسی چاہ جاتی ہے، جبر کا قانوں ہر طر ف نظر آتی ہے تو محرومی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھنے کو ملتا ہے، محکوم پر حکمرانی کرنے کےلئے انگریز سامراج کا بنایا ہوا پالیسی تقسیم کرو اور حکومت کرو، وہی پالیسی جو کالونیل ریاست استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح طلبا کو مفادات کی خاطر نام نہاد قوم پرستوں نے تقسیم در تقسیم کا شکار کیا ہے، وہ اپنے سوچ میں آزاد نہیں، جو اپنی آزادی سے فیصلے کرسکیں۔ وہ تنظیم جو اپنے فیصلے آزادی سے کرتے ہیں وہ تنظیم ریاست سمیت نام نہاد قوم پرستوں کےلئے ممنوع ہیں۔

جس طرح بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی دور حکومت میں کیا گیا تھاکہ اگر پاکستان بلوچ تحریک کو کاونٹر کرناچاہتا ہے تو گراؤنڈ میں ریڈیکل انقلابی تنظیم یعنی بی ایس او آزاد کو کام سے روک دیں، ۲۰۱۳ کو بی ایس او کو کالعدم قرار دیا گیا اور بی ایس او کے لیڈروں کی گرفتار ی کے بعد لاپتہ کرنے کے سلسلہ میں تیزی آئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج طلبا اور طالبات کی بے بسی اور لا چاری میں بی ایس او آزاد کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی کمی طلبا اور طالبات محسوس کررہے ہیں، جب بی ایس او آزاد تعلیمی اداروں میں کام کرتا تھا، اُس وقت پاکستانی فوج کویہ جرات نہیں تھی کہ طلبا اورطالبات کو ہراساں کرے، ناکہ تعلیمی ادارے کا انتظامیہ سوچ سکتی تھی۔ طلبا کو غور کرنا ہو گا کہ بی ایس او آزاد کی کالعدمی کے خلاف آواز بلندکریں اور اپنے مستقبل کو محفوظ کریں۔

لاچاری کا ایک قصہ سنتے ہیں کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کو ئٹہ پریس کلب کے سامنے گذشتہ دس سالوں سے احتجاجی کیمپ موجود ہے، گرفتار شدہ بلوچ نوجوانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، زندہ ہیں یا شہید کئے جاچکے ہیں، گرفتارشدہ لاپتہ افراد کے لواحقین ماما قدیر کے ہمراہ ہر وقت احتجاج میں موجود ہوتے ہیں۔

لانگ مارچ سے لے کر احتجاج کے تمام ذریعے استعمال کیئے گئے،۲۲اکتوبر ۲۰۱۹کو لاپتہ افراد کے لواحقین جبر ی طور پر ڈی پورٹ ہو نے والے راشدحسین کے اہلخانہ اور نو از عطاء کے اہلخانہ نے مشترکہ ان کے بازیابی کے لئے ایک پرامن احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا تھا، پُرامن طریقے سے ریلی گورنر ھاؤس اور وزیر اعلیٰ ھاؤس کے سامنے اپنی دبی ہوئی صدا کا احتجاج ریکارڈ کرنے جارہے تھے، ریلی کو روکنے کےلیئے بڑی تعداد میں فوج اور پولیس کی پہلے سے بھاری نفری تعینات تھی تاکہ انکے احتجاج کو روک سکیں، کیونکہ انکو احتجاج کا حق نہیں دیا جاتا ہے، کہ وہ اس ملک میں اپنے پیاروں کے لئے احتجا ج کریں، اپنے پیاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں، یہ پہلی دفعہ نہیں اس سے پہلے کئی دفعہ ایسا ہوتا رہا ہے۔

جب ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اورانکے ساتھیوں کو کراچی سے گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا، انکے اہلخانہ کواحتجاج کا حق نہیں دیا گیا۔ جس وقت جام کمال کے والد جام یو سف وزیر اعلیٰ تھا اور گورنر نواب مگسی تھا، اُسوقت فوج نے گورنر اور وزیر اعلیٰ ھاوس کے سامنے احتجاج کرنے نہیں دیا توریلی نے سرینا ہوٹل کے سامنے کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا، اس احتجاج کی سربراہی ڈاکٹر اللہ نظربلوچ کے بڑے بھائی شہید سفر خان اور اختر ندیم کے والد محترم واجہ لعل بخش بلوچ کررہے تھے۔ اسی طرح علی اصغر بنگلزئی کے فیملی نے احتجاج کیا، انکے ماں کو اجازات نہیں دیا گیا۔ گرمی سے انکی ماں بے ہوش ہوئی تھی۔

کس کس کا ذکر کروں، حال ہی میں گرفتار شدہ اسٹوڈنٹ لیڈر شبیر بلوچ کے خاندان کا احتجا ج روک کر احتجاج میں سیما اور زرینہ کو رولا دیا گیا۔

یہ کچھ واقعات ہیں کہ آپ کے لئے سمجھنے میں آسانی ہو، ماضی کو یاد کرنا ہوگا جب ماضی کو یاد کرتے ہو تو دشمن کی فطرت کو سمجھتے ہیں کہ کس طرح کا رویہ ہمارے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔

دکھ بھری تصویروں کو دیکھنا آسان نہیں، کیونکہ انکو دیکھنے کےلئے ایک ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی اپنے بے بسی لاچاری کو دیکھ نہیں پاتاہے، ایسے میں عجیب اور غریب سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، کیا کوئی اپنی ماں، بہن بھابھی ،پھوپھی کو سڑکوں پر روتے ہوئے دیکھ سکتا ہے یا کسی کو ہمت ہوتی ہے کہ ماہ رنگ نصیر کی وہ داستان سن سکے جو دوسال تک اذیت برداشت کرتی رہی۔ یا ماہ رنگ غفار کی داستان سن سکتی ہے، جسکے والد کو شہید کرکے انکے لاش کوپھینک دیا گے یا مہلب دین اور سمی دین کے درد کو محسوس کرتے ہیں، کیا آپ ذاکر مجید کی والدہ کی درد بھری آنسووں کو دیکھ سکتے ہیں، راشد حسین کی ماں کے درد بھری قصے کو سن سکتے ہیں، انکے ساتھ کیا گذر رہا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیونکہ داستانِ جبر تو دنیا کی جنگوں میں ہم سنتے پڑھتے آرہے ہیں، مگر بلوچستان میں پاکستانی فوج اور ریاست کی پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ نے وہ تمام حدوں کو پار کیا ہے۔

اس کے باوجود کچھ بلوچوں میں اب بھی بے حسی موجود ہے، وہ بلو چ کی نام پر سیاہ دھبے ہیں، جو اس وقت نام نہاد پارلیمنٹ کے حصے ہیں یا بیورکریسی میں ہیں۔ جو اس وقت بیورکریسی میں بیٹھے ہیں انکو معلوم ہو نا چاہیئے کہ گذشتہ ستر سالوں سے آپ کو اس جگہ کیو ں نہیں لایا گیا، یہ قابلیت نہیں قابل انسان پہلے بھی موجود رہے ہیں، یہ بلوچ جدوجہد اور شہیدوں کی قربانی کے بدولت ہیں اور آپ لو گوں کے خیالات منتشر کرنے کیلئے ہے تاکہ اپنے حقیقی مسئلے سے راہ فرار اختیار کریں اور خامو شی سے بیورکرسی کے چند سیٹ دے رہے ہیں تم لوگوں کو اپنی مستقبل کو سمجھنا ہو گا۔

خیر اپنے بحث کی طرف آتے ہیں، ان تصویروں کو دیکھ کر عرش ہل جاتا ہے مگر کیا کریں، لالچ اور خوف نے کچھ لوگوں کو اندھا کردیا ہے، مگر یاد رکھیں یہ ریاست کسی سے وفادار نہیں ہوگا۔ استعمال کرکے ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیتا ہے مگر بے حسی ایسے لوگوں کو قبر تک لے جاتی ہے۔

بلوچوں کا قول ہے جب کو ئی عورت کہیں آئے تو بڑی سے بڑی جنگوں کا فیصلہ کیا جا تا ہے، مگر کیا پریس کلب کے سامنے ان ماؤں اوربیٹیوں کا بیٹھنا، پارلیمنٹ میں بیٹھے نام نہاد سردار اور نواب کو نظر نہیں آرہے ہیں ۔

انکے بلوچی غیر ت اور روایات کو خوف اور لالچ نے مفلوج کر دیا ہے، یہ احتجاج کرنے والی مائیں تم لوگوں سے کچھ نہیں چاہتے، بس ہمت کریں ان سے اظہار یکجہتی کریں، ہر ایک جانتا ہے، آپ لوگوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ آپ کسی چپڑاسی کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں، اس پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے ایک ریٹائرڈ کپٹن کو زیادہ طاقت ہوتا ہے لیکن تم لوگوں کو اپنی بلوچی غیرت اور روایات کو یک طرف رکھیں یہ اعلان کریں ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں صرف تنحواہ کے لئے یہاں بیٹھے ہیں۔

یہ تصویر غور طلب ہے، انا پرست لیڈروں نے آزادی کی جدوجہد کو تقسیم در تقسیم کی شکار کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے جب آپ تقسیم ہوتے رہیں گے تو طاقت کے بل پرختم ہو جائیں گے۔ تمہیں پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا ، اگر آپس میں یکجہتی پیدا کی تو تمہیں کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ مفادات کی دنیا ہے، جذبات قوموں میں موجود ہے لیکن رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ نا انکو کسی مفاد پرست کےلیئے چھوڑ دیا جائے نا کسی اور کے سہارے، کیونکہ مفاد پر ست کچھ بھی کرتے ہیں ،لیکن اُن ماؤں اور بہنوں کی آہ کو سمجھنا ہوگا، ورنا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔