دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 19
مصنف: مشتاق علی شان
نظریے کا ہتھیار | آخری حصہ
ہمارے خیال میں ہماری اس بات سے موجودہ مجلس میں کسی شخص کو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کی تمنائیں پوری کرنے، یعنی قومی آزادی حاصل کرنے کا واحد طریقہ مسلح جدوجہد ہے جس نے بھی اپنے عوام کو آزاد کرانے کا سچ مچ عزم باندھا ہے اس نے موجودہ عہد میں آزادی کی جدوجہد کی تاریخ سے یہی ایک بڑا سبق سیکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طریقہ کا ر کو موثر بنانے کی ذمہ داری کون اٹھائے گا اور اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے جو صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ آزادی کے بعد پائیدار رہے گی؟ ہماری رائے میں ان چیزوں کا انحصار نہ صرف جدوجہد کی تنظیم اور تنظیم کی اندرونی صفات پہ ہوتا ہے بلکہ ان افراد کے سیاسی اور اخلاقی شعور پہ بھی ہوتا ہے جو تاریخی وجوہات کی بنا پر نوآبادیاتی ریاست ٹوٹنے کے بعد اس ریاست کے باقیات سمیٹ کر ایک نئی خود مختار ریاست بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ واقعات نے ثابت کر دیا کہ مقامی نچلی بورژوازی سماج کی واحد ٹکڑی ہے جس میں سامراجی غلبے کی حقیقت کے شعور کی اہلیت ہوتی ہے اور جو یہ غلبہ ختم ہونے کے بعد ریاستی انتظام چلانے کی صلاحیات رکھتی ہے۔ اس طبقاتی ٹکڑی کے معاشی معاملات خاصے دگرگوں ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نچلی بورژوازی میں ذاتی صفات کے بڑے الجھاؤ ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے رحجان پائے جاتے ہیں، ذاتی صفات اور رحجانوں کی یہ گھتیاں سلجھانا بڑا دشوار ہوتا ہے اسی لیے یہ حقیقت کہ انقلابی ریاست چلانے کی اہلیت فقط اس ٹکڑی میں ہوتی ہے، قومی آزادی کی تحریکوں کی بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے۔
براہِ راست سامراجی غلبے کے دنوں میں نام نہاد مقامی بورژوازی کوئی خاص ترقی نہیں کر پاتی۔ قومی آزادی کے ظہور سے پہلے عوام میں بھی سیاسی شعور کا معیار اتنا بلند نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہیے۔ چنانچہ غیر ملکی غلبے کے خلاف جدوجہد کی رہنمائی کا موقع نچلی بورژوازی کو مل جاتا ہے۔ اس نچلی بورژوازی کا معیار زندگی عوام کے عام معیار سے زیادہ اونچا ہوتا ہے سامراجی دلالوں کے ساتھ اس کا براہ راست سابقہ پڑتا ہے۔ چنانچہ اسے ذلت اٹھانے کے مواقع بھی زیادہ درپیش ہوتے ہیں۔تعلیم اور سیاسی شعور کا معیار نسبتاََ زیادہ اونچا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی معروضی اور داخلی وجوہات ہوتی ہیں جن کی بنا پر اپنے آپ کو غیر ملکی غلبے سے چھٹکارا دلانے کی ضرورت کا احساس اس طبقاتی ٹکڑی میں زیادہ تیزی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تاریخی ذمہ داری نچلی بورژوازی کا وہ حصہ قبول کرتا ہے جسے سامراج کے سیاق و سباق میں انقلابی کہا جاسکتا ہے۔ نچلی بورژوازی کے دیگر حصے بدستور اسی تذبذب اور بے ارادگی کا شکار بنے رہتے ہیں جو دراصل ان طبقوں کا خاصہ ہے یا اپنی سماجی حیثیت بچانے کے جھوٹے گمان میں باضابطہ طور پر نوآبادیاتی نظام کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔
جدید نوآبادیاتی نظام کے اندر سب سے بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ مقامی نام نہاد بورژوازی کو ختم کیا جائے تاکہ قومی آزادی حاصل ہو۔ چنانچہ غیرملکی غلبہ ختم کرنے کی جدوجہد میں نچلی بورژوازی کو بہت زیادہ اہم بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن ان حالات میں سماجی ڈھانچے میں ترقی آجانے کے باعث جدوجہد کی رہنمائی کے منصب میں نچلی بورژوازی کو کسی نہ کسی حد تک مزدور طبقے کی نسبتاََ زیادہ تعلیم یافتہ ٹکڑیوں کو برابر کا شریک رکھنا ہوتا ہے اور تھوڑا بہت حصہ نام نہاد قومی بورژوازی کے ان افراد کو بھی دینا ہوتا ہے جو وطن پرستی کے جذبے سے متاثر ہوجائیں۔ نچلی بورژوازی کا جو حصہ جدوجہد کی رہنمائی میں شرکت کرتا ہے اس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ جدید نوآبادیاتی نظام میں یہی ٹکڑی ہوتی ہے جسے یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، کیونکہ مزدور طبقے کی معاشی اور ثقافتی مجبوریاں ہوتی ہیں اور نام نہاد قومی بورژوازی کا جو حصہ جدوجہد کی حمایت کرتا ہے اس میں نظریاتی نوعیت کی پیچیدگیاں اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں یہ ذکر اہم ہے کہ نچلی بورژوازی کی اس ٹکڑی کا جو کردار بنتا ہے اس میں بہت ہی وسیع انقلابی شعور کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں کہ جن کے سہارے جدوجہد کے ہر دور میں عوامی تمناؤں کا بالکل صحیح اظہار ہوسکے اور اپنے آپ کو بہر طور عوام کے طرز اور رنگ میں ڈھالا جاسکے۔ یہ تاریخی فریضہ انجام دینا نچلی بورژوازی کی جس ٹکڑی کا مقصد ٹھہرا ہے اس میں انقلابی شعور چاہے جتنا گہرا ہو، یہ اپنے آپ کو ایک معروضی حقیقت سے آزاد نہیں رکھ سکتی اورحقیقت یہ ہے کہ نچلی بورژوازی پیداوار میں براہِ راست حصہ نہ لینے کی بنا پر ایک خدمتی طبقے کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ اس کی قدرت میں وہ اقتصادی اساس نہیں ہوتی جس کے بل پہ وہ اقتدار حاصل کرنے کی ضمانت رکھ سکے بلکہ حقیقت میں تو تاریخ نے دکھا دیا ہے کہ نچلی بورژوازی سے نکلے ہوئے افراد کا کردار چاہے جتنا اہم رہا ہو سیاسی اقتدار کبھی اس طبقے کے ہاتھ میں نہیں رہا اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ سیاسی اقتدار (یعنی ریاست) کا انحصار حکمران طبقے کی اقتصادی استعداد پہ ہوتا ہے اور نئے پرانے دونوں طرزوں کے سامراج میں یہ استعداد فقط دو قوتوں کو حاصل ہے، سامراجی سرمائے کو یا محنت کش طبقے کو۔
وہ طاقت اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے جو قومی آزادی نے اسے عطا کی ہے، نچلی بورژوازی کے سامنے فقط ایک رستہ ہے وہ یہ کہ بورژوا بن جانے کے اپنے رحجان کا بے لگام اظہار کرے، تجارتی دائرے میں ایک نوکر شاہی اور درمیانہ بورژوازی کو ترقی کا موقع دے تاکہ خود آگے چل کر ایک قومی بورژوازی بن سکے۔ یعنی انقلاب کی نفی کرے اور سامراجی سرمائے کے ساتھ ناطہ جوڑ لے۔ آپ دیکھیں گے جدید نوآبادیاتی نظام میں یہی کچھ ہوتا ہے، یعنی قومی آزادی کے مقاصد کو نیلام پہ چڑھایا جاتا ہے۔ اس نیلام سے بچنے کے لیے نچلی بورژوازی کے سامنے ایک ہی رستہ ہے وہ یہ کہ اپنے انقلابی شعور میں گہرائی اور وسعت پیدا کرے، مزید بورژوا بن جانے اور اپنی انقلابی ذہنیت کے قدرتی رحجانوں پہ عمل کرنے کی ترغیب سے انکار کرے، مزدور طبقوں کے اندر گھل جائے اور انقلابی عمل کی قدرتی اٹھان کو روکنے سے باز رہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ٹھیک طرح ادا کر نے کے لیے نچلی بورژوازی کو ایک طبقے کی حیثیت سے خود کشی کرنا ہوگی تاکہ انقلابی مزدوروں کے روپ میں دوبارہ جنم لے سکے۔ اور جن عوام کا حصہ ہے ان کی تمناؤں کو بھرپور اظہار کر سکے۔
دوستوں کے مابین یہ انتخاب کہ یا تو انقلاب کے ساتھ فریب کرے یا ایک طبقے کی حیثیت سے خود کشی کر لے، قومی آزادی کی جدوجہد کے عمومی تانے بانے میں نچلی بورژوازی کو یہی عقدہ درپیش ہوتا ہے۔ انقلاب کے حق میں مثبت فیصلے کا انحصار اس چیز پہ ہوتا ہے جسے پچھلے ہی دنوں فیدل کاسترو نے بالکل بجا طور پہ انقلابی شعور کی نشوونما کہا ہے۔ اور انحصار اسی بات پہ ہے تو غور ہمیں اس بات پر بھی کرنا ہو گا کہ جو شخص قومی آزادی کی جدوجہد کی رہنمائی کرتا ہے اس میں جدوجہد کے اصولوں اور بنیادی مقصد سے وفادار رہنے کی صلاحیت کس قدر ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اگر قومی آزادی بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے تو جن حالات میں یہ آزادی پنپ سکتی ہے ان کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی حد تک اخلاقیات کے زمرے میں آتے ہیں۔
ہم یہاں تالیاں بجانے کے لیے نہیں آئے ہیں، نہ ہم جدوجہد کرنی والی کسی ایک قوم کے ساتھ اپنی محبت اور وابستگی کا اعلان کرنے آئے ہیں۔ یہاں ہماری موجودگی ہی سامراج کے منہ پر ایک چپت ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم ان سب اقوام کے ساتھی ہیں جو اپنے اپنے ملک سے سامراج کا بھوت نکال پھینکنا چاہتے ہیں اور ویت نام کے دلیر عوام کی قربت ہمارے دلوں میں بالخصوص ہے۔ لیکن ہمیں مکمل یقین ہے کہ اپنے سامراج مخالف نظریے اور اس مشترک جدوجہد میں اپنے ساتھیوں کی چاہت اور عملی رفاقت کا بہترین ثبوت ہم اس صورت میں فراہم کرسکتے ہیں کہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں تاکہ اس جدوجہد کو مزید آگے بڑھا سکیں اور قومی آزادی کے اصولوں اور مقاصد پر ثابت قدم رہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ قومی آزادی کی ہر تحریک جس کے نمائندے یہاں موجود ہیں خود اپنے ملک میں عوم کی بانہوں میں بہانیں ڈال کر، آواز میں آواز ملا کر ساری دنیا میں گونجتے ہوئے کیوبا کے یہ الفاظ دہرا سکیں:
مادرِ وطن کے واسطے موت بھی قبول ہے !
آخری جنگ ہم جیتیں گے !
آخری فتح ہماری ہوگی !
انقلاب تک جنگ جاری رہے گی !
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔