امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 16 – مشتاق علی شان

189

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 16
مصنف: مشتاق علی شان

نظریے کا ہتھیار | حصہ دوئم

ہم نے اس پورے ماضی کو تاریخ کے حدود سے نکالا تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا جو ہم ہر گز قبول نہیں کر سکتے کہ سامراج کے کولھو میں جتنے سے پہلے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے بے شمار انسانی گروہ تاریخ کے بغیر تھے یا تاریخ سے باہر رہ کر زندگی گذار رہے تھے۔ یہ بات ماننے سے ہم منکر اس لیے ہیں کہ ہم اپنے ممالک کی معاشرتی اور معاشی حقیقت جانتے ہیں اور پہلے ہی تجزیہ کر چکے ہیں کہ جس چیز کو ”طبقہ“ کہا جائے گا وہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ کو حرکت دینے والی چیز طبقاتی جدوجہد ہے مگر طبقاتی جدوجہد کو یہ اہمیت تاریخ کے فقط ایک مخصوص دور میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی طبقاتی جدوجہد سے پہلے اور طبقاتی جدوجہد کے بعد (کہ ہر ماضی کا ایک مستقبل ہوتا ہے) ایک اور عنصر یا متعدد دیگر عناصر ہیں جو تاریخ میں حرکت کی بنیاد بنتے ہیں اور ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہر انسانی گروہ کی تاریخ میں یہ عنصر اس گروہ کے مخصوص طریق ِ پیداوار کی شکل میں یعنی پیداواری قوتوں کی سطح اور ملکیت کے ڈھانچے کے باہمی تناسب میں نمودار ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ خود طبقات، طبقاتی ٹکراؤ اور ان کی تعریفیں بھی پیداواری قوتوں کے ارتقا پر منحصر ہوتی ہیں اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ارتقا کا پیداواری ذرائع ملکیت کے طریقے سے کیا رشتہ اور ربط ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پیداواری قوتوں کی سطح جو طبقاتی جدوجہد کا ظاہر اور باطن مقرر کرنے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہی سطح دراصل تاریخ میں حرکت کا سچا اور مستقل سبب ہے۔ اگر ہم یہ نتیجہ قبول کر لیں تو ہمارے ذہن سے شک وشبہات دھل سکتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو طبقاتی جدوجہد سے پہلے تاریخ کے وجود کی ضمانت سے ہمارے ملکوں اور شاید براعظموں کی بہت سی اقوام اس فتویٰ سے بچ جاتی ہیں کہ ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور دوسری طرف تاریخ میں تسلسل بھی ظاہر ہو جاتا ہے اور ضمانت رہتی ہے کہ طبقے اور طبقاتی جدوجہد مٹ جانے کے باوجود بھی تاریخ جاری رہے گی۔ یہ تو سائنسی بنیادوں پر ہمارے وقتوں سے پہلے ہی طے ہو چکا ہے کہ تاریخ کا مقدر یہ ہے کہ طبقات مٹ کر رہیں گے۔ چنانچہ ہمارے مندرجہ بالا تجزیے کے ذریعے ذرا اطمینان بخش صورتحال بہم ہوتی ہے کیونکہ تاریخ کی پائیداری ثابت ہو جاتی ہے اور جو لوگ، مثلاََ کیوبا کے لوگ سوشلزم کی تعمیر کر رہے ہیں ان کے لیے مستقبل کا ایک خوش آئند تصور بھی قائم رہے گا کہ اقتصادی معاشرے میں سے طبقات اور طبقاتی جدوجہد مٹانے کا ان کا ارادہ پورا ہو بھی جائے اس کے بعد بھی ان کی تاریخ جاری رہے گی۔ ابدیت تو اس جہاں کی چیز نہیں لیکن طبقات کے مرنے کے بعد بھی انسان زندہ رہے گا اور پیداوار میں شرکت کے بل پر اپنی تاریخ بناتا رہے گا کیونکہ انسان اپنے آپ کو ضروریات سے یعنی جسم کی اور ذہن کی ضروریات سے کبھی آزاد نہیں کراسکتا اور جسم اور جذبے کی یہ ضرورتیں ہی پیداواری قوتوں میں ترقی کی بنیاد بنتی ہیں۔

مندرجہ بالا تجزیے اور ہمعصر حقیقت کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسانی گروہ بلکہ پوری انسانیت کی تاریخ کم از کم تین ادوار سے ہو کر گذرتی ہے۔ پہلے عہد کی صفت یہ ہوتی ہے کہ پیداواری قوتوں کا معیار بہت نیچا رہتا ہے۔ آدمی قدرت پر بہت کم قادر ہوتا ہے، طریقِ پیداوار پسماندہ ہوتا ہے، پیداواری ذرائع پر نجی ملکیت کا فی الحال وجود نہیں ہوتا، طبقات ناپید ہوتے ہیں چنانچہ طبقاتی جدوجہد کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے دور میں پیداواری قوتوں کی ترقی کے نتیجے میں پیداواری ذرائع پر نجی حاکمیت شروع ہوتی ہے۔ طریقِ پیداوار نسبتاََ زیادہ پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے، بڑھتے اور پھیلتے ہوئے معاشرتی اور اقتصادی تانے بانے میں مفادات کا ٹکراؤ بڑھتا ہے، چنانچہ ”طبقے“ اور طبقاتی جدوجہد کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس جدوجہد کے ذریعے اقتصادی نوعیت کے ایک مخصوص معیار تک پہنچ جانے کے نتیجے میں پیداواری ذرائع کی نجی ملکیت کو ختم کر دینا ممکن ہو جاتا ہے اور جب اس امکان پر عمل ہوتا ہے تو طبقات اور طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر معاشی اور معاشرتی تانے بانے میں ایسی بالکل نئی قوتیں پیدا ہوتی ہیں جو انسان کے تجربے میں پہلے کبھی نہ آئی تھیں۔

اقتصادیات اور سیاست کی زبان میں یوں کہیے کہ پہلا دور پنچائتی زراعت اور مویشی پالنے والے معاشروں کا دور ہوتا ہے اس میں معاشرتی ڈھانچہ غیر عمودی اور سپاٹ رہتا ہے اور کوئی ریاست نہیں بن پاتی۔ دوسرے دور میں جاگیرداری ہوتی ہے، غاصبانہ زراعت ہوتی ہے، زراعت اور صنعت کو ملا کر معاشرہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس دور کا معاشرہ عمودی اور اونچ نیچ سے بھرپور ہوتا ہے اور ریاستی ڈھانچہ بنتا ہے۔ تیسرا دور سوشلسٹ یا کمیونسٹ معاشروں کا ہوتا ہے۔ ان معاشروں میں معیشت کا پورا نہیں تو بڑا حصہ صنعتی ہوتا ہے اور زراعت خود ایک صنعت بن جاتی ہے۔ ریاست کا یا تو زوال ہوتا چلا جاتا ہے یا واقعی ختم ہو جاتی ہے، اونچ نیچ مٹ جاتی ہے اور معاشرہ ایک بار پھر سپاٹ اور غیر عمودی بن جاتا ہے۔ پیداواری قوتوں کا معیار بہت بلند ہو جاتا ہے، معاشرتی رشتوں اور انسانی قدروں کی منزلت بہت بڑھ جاتی ہے۔

ہمارا ماضی اور حال کا تجربہ یہ ہے کہ انسانیت یا انسانی برادری کے ایک حصے کی سطح پر (یعنی کسی مخصوص خطے ایک یا ایک سے زیادہ براعظم کی سطح پر) یہ تینوں ادوار (یا ان میں سے کوئی سے دو ادوار) بیک وقت بھی چل سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی معاشروں کے ارتقا میں یکسانیت اور ہمواری نہیں ہوتی۔ معاشرے کے اندر بھی ایسے عناصر ہوسکتے ہیں اور باہر سے بھی ایسے اثرات آ سکتے ہیں کہ کسی مخصوص معاشرے کی ترقی دھیمی پڑ جائے یا تیز ہو جائے۔ بہر کیف معاشرے کے تاریخی ارتقا میں جب کوئی دور تبدیلی کے خاص مدارج طے کر چکے تو اگلے دور کے بیج اس کی کوکھ میں آپ ہی آپ پڑنے لگتے ہیں۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انسانی زندگی کے موجودہ مرحلے پر اور کسی بھی مخصوص معیشی معاشرت کے ڈھانچے کے لیے لازم نہیں ہے کہ یہ تین ادوار یکے بعد دیگرے ہی آئیں اور ہر ایک دور بڑے بڑے عرصے تک چلتا رہے۔ پیداواری قوتو ں کا معیار اور موجودہ معاشرتی ڈھانچہ کچھ بھی ہو، کوئی بھی معاشرہ مقامی (تاریخی اور انسانی) حقیقتوں کے مطابق ارتقا کے دور میں سے بہت تیزی سے گذر کے زیادہ بلند سطح تک بہت جلد پہنچ سکتا ہے۔ اس ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ اس معاشرے کی پیداواری قوتوں کی نشوونما کے ٹھوس امکانات کیا ہیں اور ترقی کے امکانات سب سے زیادہ اس بات پر منحصر ہوں گے کہ معاشرے پر کس قسم کی سیاسی طاقت کا غلبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ معاشرے کے اندر کس طبقے کی یا کون سے طبقات کے گٹھ جوڑ کی طاقت سب سے برتر ہے۔

ہم زیادہ تفصیلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ تاریخی عمل کی اس بڑی زقند کے امکانات اقتصادی میدان میں ان ذرائع کی قوت سے نکلتے ہیں جو فطرت پر فتح پانے کے لیے انسان کو میسر ہوں اور سیاسی میدان میں اس نئے واقعہ سے نکلتے ہیں جس نے دنیا کی شکل اور تاریخ کے ارتقا کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ میری مراد سوشلسٹ ریاستوں کے قیام سے ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقتصادی ترقی کے مخصوص دور سے قطع نظر ہماری اقوام کی اپنی اپنی تاریخیں ہیں۔ جب ہماری اقوام سامراجی غلبے کا شکار ہوئیں تو ان میں سے باہر ایک قوم کے (یا ان تمام انسانی گروہوں کے جن سے مل جل کر یہ قومیں بنی ہیں) تاریخی عمل پر باہر کے ایک عنصر کا شدید دباؤ پڑا۔ ظاہر ہے کہ اس عمل نے یعنی ہمارے معاشروں پر سامراج کے دباؤ نے ہمارے ملکوں میں پیداواری قوتوں کی ترقی پر اثر ڈالا ہے۔ ہمارے ملکوں کے معاشرتی ڈھانچے سامراج کے زیر اثر ہیں اور ہماری قومی آزادی کی تحریکوں کے ظاہر پر بھی سامراج کا اثر پڑا ہے اور باطن پر بھی۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان تحریکوں کے فروغ کے تاریخی مناسبات کے ذریعے ہماری اقوام کے سامنے ٹھوس امکانات پیدا ہو ئے ہیں کہ وہ استحصال اور پسماندگی کے موجودہ حالات سے نکل کر اپنے تاریخی سفر کی ایک نئی منزل تک پہنچیں جہاں وہ اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کے بلند تر معیارات حاصل کر سکتی ہیں۔

اس کانفرنس کی بین الاقوامی انتظامی کمیٹی نے جو سیاسی بیان مرتب کیا ہے اس کی ہم بھرپور تائید کرتے ہیں۔ اس بیان میں واضح اور موثر تجزیے کے ذریعے سامراج کو اس کے معاشی پس منظر اور تاریخی سیاق وسباق کے ساتھ جوڑ کر دکھلایا گیا ہے۔ اجلاس میں جو کچھ کہا جا چکا ہے وہ ہم نہیں دہرائیں گے۔ ہم فقط اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ سامراج کی سیدھی سی ایک تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ عالمی سطح پر منافع خوری کی تلاش کا اظہار ہے اور قدرِ زائد کے بتدریج بڑھتے ہوئے سمٹاؤ کا نظام ہے اور یہ سمٹاؤ اس اجارہ دارمالیاتی سرمائے کے حق میں کیا جاتا ہے جو دنیا کے دو حصوں میں یعنی پہلے یورپ میں اور اب شمالی امریکا میں مرکوز ہو رہا ہے اور اگر ہم سامراج کی حقیقت کو اس وجدانی عنصر کے ارتقا کے بہاؤ میں رکھ کر دیکھیں جس نے دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی ہے یعنی سرمائے اور اس کے سمٹاؤ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سامراج وہ قزاقی ہے جو سمندر سے ہٹا کر خشک زمین پر رائج کر دی گئی ہے۔ وہ قزاقی جس میں ضرورت کے مطابق ردووبدل کر کے ازسرِ نو تنظیم کی گئی ہے تاکہ ہماری اقوام کے قدرتی اور انسانی وسائل پر ڈٹ کا قبضہ کیا جاسکے۔ لیکن اگر ہم ٹھنڈے دل سے سامراجی ڈھانچے کا تجزیہ کریں تو کسی کے احساسات کو غیر ضروری چوٹ دیے بغیر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سامراج جو یقیناََ سرمایہ داری کے ارتقا کا آخری مرحلہ ہے، ایک تاریخی ضرورت بھی رہ چکا ہے۔ اگر ہم انسانیت کو ایک وحدت بنا کر دیکھیں اور سامراج کو انسانیت کے عمومی سیاق وسباق کے اندر رکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ سامراج نے پیداواری ذرائع میں بہت بڑی تبدیلیوں کے ذریعے جنم لیا اور پیداواری قوتوں کے بل بوتے پر ترقی کی۔ اپنے وقت میں سامراجیت اتنی ہی ناگزیر تھی جتنی آج دنیاوی عوام کی قومی آزادی، سرمائے کی شکست اور سوشلزم کی ابتدا ناگزیر ہو گئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔