احتجاج کو سمت دیجئے جناب – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

420

احتجاج کو سمت دیجئے جناب

تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

( وائس چئیر پرسن بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی )

دی بلوچستان پوسٹ 

روشن دن میں بھی انہیں سوئے رہنے کا شوق تھا، خاموشی انہوں نے اپنا مقدر بنا رکھا تھا، وہ شور سے چِڑ جاتے تھے اور ہر شور کرنے والا گُنہگار تھا، تب کچھ ایسا ہوا کہ سب بڑبڑا کے اُٹھ گئے، انہیں معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ وہ ہکلائے ہوئے تھے؟ ہاں سوتے رہنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ تو ابھی نیند سے اٹھیں ہیں ،کسی نے اپنے ننگ و ناموس کو کھونے کا دعویٰ کیا تو کسی نے سازشوں کے زنجیروں کے جڑنے کا نام دیا ، اب وہ شور کرنے لگے تھے ۔ سب کے سب اتنا کہ انہیں خود معلوم نہیں ہوا کہ انہیں کیا کہنا ہے؟ کس نے سُننا ہے؟

بلوچستان یونیورسٹی میں پچھلے دنوں رونما ہونے والا واقعہ نہایت ہی گھٹیا واقعہ ایک مُردہ قوم میں روح پھونکنے میں کام کرگیا ہر کوئی پُر جوش میدان عمل میں اُترا ہے، مگر مطالبات کیا ہیں؟ اُس شخص کو گرفتار کرنا جس نے ضمیر کو للکارنے والی حرکت کی ہے؟ وہ تو گرفتار ہوچکا ہے، اب اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ کیا مسئلہ اس شخص میں تھا ؟ پھر اس نظام کا کیا کریں جس نے دہائیوں سے ہمیں اس جبر کے ماحول میں رکھا ہے؟

میں اپنا اختلاف رائے رکھ رہی ہوں۔ غلط اور صحیح ہونا آپ کے نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ مگر آواز اُٹھانے والے ہر شخص کو خود کی آواز پر نظر ثانی کرنی ہوگی کہ وہ کیوں اور کس لیے بر سر احتجاج ہے؟ کیا یہ احتجاج محض اس لیے ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے بلیک میلنگ مافیا بنا رکھا تھا انہیں نکال کر دم لیا جائے؟ یا اس لیے کہ انہیں نکال کر ننگ و ناموس کی حفاظت کا جو ٹھیکا ہم نے اُٹھا رکھا ہے وہ ہم مکمل کر لینگے؟ یا پھر ان چند افراد کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہم بلوچستان بھر میں تعلیم کو آزاد کرینگے؟ کیا آپکے اور میرے نعروں کو اپنا سمت تعین کرنے کی ضرورت نہیں؟ ان سوالوں کے جواب خود کو دیجیے اور اپنے آہ میں جستجو کیجیئے کہ آپ کیا کر رہے ہیں، کیوں کررہے ہیں؟ آپ کی منزل مقصود کیاہے؟

بلوچستان میں تعلیم کو قید کرنا محض حادثہ نہیں ہے۔ یہاں اسکے واضح وجوہات ہیں۔ ایک جانب غربت جو تعلیم کے سوچ کو ڈراونا خواب قرار دیتا ہے تو دوسری جانب خوف و ہراس کا ماحول کہ اب کے بار گھر سے نکلے تو سلامت لوٹے کہ نہیں۔ جبری طور پر لاپتہ ہونے سے لیکر بار بار فیل کرنے کے دھمکیاں ملنا، اور خواتین کے لیے پانی میں زہر ملانے سے لیکر تصاویر کے زریعے بلیک میل کرنا یا پھر رات گئے ہاسٹلز سے دھکے مار کر باہر پھینک دیے جانا۔ اس زمین پر ہمارے لیے ہزاروں پیدا کردہ مسئلے ہیں۔ جبکہ ہم ہر مسئلے کے بارے میں جان کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ ہر ایک دلخراش واقعے کو لیکر سطحی بیانات یا احتجاج کر کے سو جاتے ہیں۔ پھر اگلی دفعہ کوئی اور مصیبت سر اٹھاتا ہے اور اس کو اٹھنا بھی ہے کیونکہ ہم ہر رونما ہونے والے واقعے کی تہہ تک جانے، اس کی پیچیدگی اور باریکیوں کو سمجھنے کے بجائے سطحی ردعمل کا مظاہرہ کرکے اپنی ذات کو تسکین دیتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہمارے لیے خواتین کا مسئلہ ننگ و غیرت کا مسئلہ ہے، لاپتہ افراد کا مسلئہ انسرجسنسی کا مسئلہ ہے، امتحانات میں بار بار فیل ہونا طلباء کے اپنے نا لائقی ہے، یوں ہر پیدا کردہ مسائل کو ہم ایک مرکز کی جانب جوڑنے کے بجائے اس کو مختلف سطحی چیزوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

رہی بات بلوچستان یونیورسٹی کی، کیا واقعہ راتوں رات رونما ہوا ؟ یقیناً نہیں، اس واقعے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ کیا ہمیں پتہ نہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی میں اسٹیڈی سرکلز پر کیوں پابندی عائد ہے؟ کیا ہمیں پتہ نہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اندرونی صورتحال کے حوالے سے لب کشائی پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے؟ کیا ہمیں پتہ نہیں نوجوان بچیاں یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں کس گھٹن کے ماحول میں رات دن بسر کررہے ہیں؟ کیا بلوچستان یونیورسٹی میں صرف طالبات مسائل کا سامنا کررہے ہیں؟ بوائز ہاسٹل جو ٹارچر سیل سے بدتر حالت میں ہے اس کے لیے بولنا ہمارے ذمہ نہیں ہے؟

ہماری المیہ یہ ہے کہ ہم چند لوگوں نے ہر کام کا بیڑہ اپنے سر پر اُٹھایا ہوا ہے ہم نے اپنے لوگوں کو وہ آنکھیں نہیں دی جو غلط کو دیکھ سکیں۔ وہ زبان نہیں دی جو غلط کے خلاف آواز اُٹھا سکیں ۔یہ واقعہ ننگ و ناموس یا حقوقءِ نسواں کے کچل جانے کا نہیں، یہ اس جبر کے ماحول کا تسلسل ہے جو کسی نہ کسی صورت میں آپ پہ ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نام نہاد نعرے ان مسئلوں کے حل نہیں ہیں۔ غیرت کا ٹھیکہ اُٹھانے سے بہتر ہے ہم غیرت کو طاقت دے۔ ہر ہراساں کیا جانے والا واقعہ بذات خود ایک جُرم ہے۔ خواہ وہ جنسی ہرا سگی ہو یا نفسیاتی ،وہ جرم ہے۔ جرُم کو بے نقاب کیجیے۔ مرد یا عورت بن جانے سے پہلے انسان بننے کو ترجیح دیجئے۔ اور علم کی راہ میں بننے والے ہر رکاوٹ کو اُکھاڑ پھینکئے۔ ایک آواز دیجئے۔ اس نظام کو اب “ریڈ کارڈ دکھائیں” جو کسی نہ کسی طرح آپ کی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔

میں یہاں اپنے ان دو لائنوں کو دُہرانا چاہونگی کہ؛

میرے لا علمی کو بھی اتنا علم ضرور تھا
مُجھے کتابوں سے دور رکھنا کوئی حادثہ نہ تھا

میری نظر میں یہ واقعہ بھی اُن کڑیوں کا حصہ ہے جو تعلیم کی راہ میں رُکاوٹیں ہیں، اور اس سے چھٹکارے کا یہی حل ہے کے ہر کڑی کے خلاف آواز اُٹھائی جائے۔ وی سی یا زمہ داران کے بجائے “خوف” کے خلاف آواز اُٹھایا جائے، ننگ و غیرت کے بجائے ہر فرد کے لیے آواز اٹھائے جو زہنی و جسمانی حوالے سے ہراساں ہورہا ہے۔ ایک سمت اب ہم چُنینگے “#ShowTheRedCard ۔

بڑبڑا کے اُٹھنے والے لوگ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ،جاگ جائیں اور سب کو جگائیں کہ اب خاموش نہیں ہونا ، اپنے ساتھ ہونے والے ہر ہراسمنٹ کے خلاف خود آواز اُٹھائیں۔ اپنے احتجاج کو محض اس واقعے کے خلاف استعمال نہ کیجیے اس کے زریعے نسلوں کے لیے فیصلہ کیجیے، ایک دفع پھر کہونگی اپنے احتجاج کو سمت دیجیے!۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔