آہوگ گل آپ کو یہی راستہ آسان لگا؟
تحریر: سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گل،خود کشی کو جاننے سے پہلے ہمیں تھوڑی سی مذاحمت پر نظر دواڑنی چاہئے تاکہ اس پھلجھڑی کو سمجھنے کی کچھ سبیل نکل سکے۔ مذاحمت ہر ایسے عمل، سوچ، رویے یا طریقہ کار کو کہا جا سکتاہے جو کسی نا انصافی، ظلم، تشدد، بربریت یا جبر کے خلاف کیا گیا ہو۔ مذاحمت سے ماہرین یہ بھی مطلب اخذ کرتے ہیں، کسی چیز کو روکنا، کسی ظلم کی مخالفت کرنا، کسی نا انصافی کو برداشت کرنے سے انکار کرنا اور عملی اور متحرک انداز میں کسی ظلم کا سدباب کرنا۔ ربینہ سہگل لکھتی ہیں ”مزاحمت مختلف سطح پر کی جاتی ہے۔ اس کے انفرادی اور اجتماعی انداز ہوتے ہیں“ اجتماعی اور دیرپا مزاحمت کو تحریک بھی کہا جاسکتاہے۔ اجتماعی مزاحمت بہت سے افراد، کسی ظلم و ستم کا اکھٹے شکار ہوں، مل کر کرتے ہیں۔ اجتماعی مزاحمت کیلئے ضروری ہے کہ بہت سے افراد کسی ظلم کی اجتماعی شکل کو پہچانیں، آپس میں یک جہتی محسوس کریں اور اس بات کو تسلیم کریں کہ یہ ظلم سب ہی کے خلاف ہے۔ عموماً اجتماعی طرز کی مزاحمت کیلئے کسی نہ کسی رہنما کا کردار اہم ہوجاتاہے۔ اجتماعی مزاحمت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ظلم و ناانصافی واضح طورپر نظر آئے اور لوگوں کو معلوم ہوکہ ان کا نصب العین کیا ہے اور وہ اپنی جدوجہد کے نتیجے میں کیا چاہتے ہیں۔ لہذا اجتماعی مزاحمت کے اغراض و مقاصد اکثر واضح اور صاف ہوتے ہیں۔ نتیجتاً اس قسم کی مزاحمت کے مطالبات بھی واضح ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر بلوچستان کا ۸۴۹۱ء سے شروع ہونے والا آزادی کا جنگ اجتماعی مزاحمت پر مشتمل ہے۔ بلوچ آزادی پسند تنظیموں کو معلوم ہے کہ ان کا واضح دشمن پاکستان اور پنجابی ہے اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہم آزادی کے حصول کیلے سیاسی اور عسکری محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔
اجتماعی مزاحمت اور جدوجہد کی ایک مشہور مثال روس کے۷۱۹۱ء میں انقلاب کی ہے۔ روس میں انقلاب سے قبل بادشاہت تھی اور یہ بنیادی طورپر زرعی ملک تھا۔ لینن کی قیادت میں لوگوں نے غیر منصفانہ تقسیم کی نہ صرف مذمت کی بلکہ بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے، مزاحمت صرف اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی عمل بھی ہے۔ اس کی اجتماعی شکل کا انحصار بھی انفرادی صورت پر ہوتاہے۔ جب تک کوئی فرد اپنے دل میں غم و غصے اور انتقام کے جذبات محسوس نہ کرے۔ کوئی اجتماعی تحریک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔ نفسیات دانوں کا کہنا ہے ہر انسان پیدائشی طورپراپنے اندر مزاحمت اور جارحیت کا جذبہ لے کر دنیا میں آتاہے۔
اس کے انتقامی جذبات کو معاشرہ دبانے کی کوشش کرتاہے تاکہ اجتماعی زندگی ممکن ہوسکے۔ مشہور نفسیاتی مفکر فرائڈ کا کہنا ہے کہ انسان کیونکہ جانداروں (جانوروں) کی دنیا سے تعلق رکھتاہے، اس میں تمام وہ خصوصیات ہوتی ہیں جو دوسرے جانداروں میں ہوتی ہیں۔ ہر جانور میں بنیادی طورپر دوخصوصیات ضرور ہوتی ہیں جو اس سے زندہ رہنے اور اس کی افزائش کیلئے نا گزیر ہیں۔ پہلی خصوصیت جارحیت کے جذبے کے بغیر کسی جاندار کا زندہ رہنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ ایک دفاعی جذبہ ہے جوکہ جانور حملے کی صورت میں اپنے دفاع کیلے استعمال کرتے ہیں۔ یہی جذبہ شکار کرکے کھانے کے کام بھی آتاہے۔ اگر جانداروں میں قطعی طورپر کوئی جارحیت نہ ہو تو نہ وہ اپنا دفاع کرسکتے ہیں اور نہ ہی خوراک کا انتطام کرسکتے ہیں۔ قدیم انسان کو شکار کرنے کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ خوراک میسر آسکے اور جنگلی جانوروں سے خود کو بچانے کیلے حملہ کرنے کی صلاحیت ضروری تھی۔ اس طرح دلیری اور بہادری کے تصورات ابھرے کیونکہ انسان کی بقاء دلیرہونے اور نڈر ہونے میں تھی۔ چنانچہ جارحیت کا مادہ ایک قدرتی ضرورت کے پیش نظر دیگر جانوروں کی طرح انسان میں بھی تھا۔ دوسری خصوصیات جو جاندار چیزوں اور انسان میں یکساں ہے، وہ ہے اپنی جنس کی افزائش یعنی جنسی صلاحیت تاکہ اولاد کے ذریعے اپنی قسم کو، اپنی پود کو قائم ودوائم رکھا جاسکے۔ چنانچہ پود کی بقاء کیلئے اور اسے قائم اور زندہ رکھنے کیلے جنسی عمل ضروری ہے۔ یہ دونوں احساسات بنیادی طورپر دفاعی اور خود کو قائم رکھنے کیلے نے جانداروں میں ڈالے ہیں۔
ان خیالات کی بناپر فرائڈ کا خیال تھا کہ بنیادی طورپر ایک فرد معاشرے اور اجتماع کے خلاف ہوتاہے۔ قدیم یونانی مفکر ارسطو کے الفاظ مشہور ہیں کہ انسان بنیادی طورپر سماجی جانور ہے اور دوسرے سے تعلق چاہتاہے لیکن فرائڈ کو اس سے اتفاق نہیں کیونکہ فرائد کے مطالعے نے اسے قائل کیا کہ انسان کی بہت سی قدرتی صفات دراصل معاشرے کے نظام کے خلاف ہوتی ہیں کیونکہ معاشرہ اس کی فطری اور قدرتی صلاحیتوں کو دبا کر نہیں دوسری جانب گامزن کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اجتماعی زندگی کو ممکن بنانے کیلئے انسان کے دونوں بنیادی جذبات، جارحیت اور جنسی حوس،کو قابو میں لانا پڑتاہے۔ انسان کو ایک دوسرے کو قتل کرنے اور لڑنے جھگڑنے سے روکنا پڑتاہے۔ جنسی صلاحیت اور ہوس کو اجتماعی قدروں کے دائرے میں لاکر قید کرنا پڑتاہے۔ معاشرہ ان ضرورتوں کو سماجی اداروں کے ذریعے، اخلاقی ضابطوں میں لے آتاہے۔ مثال کے طورپر دنیا کے تقریباً ہر معاشرے نے جنسی عمل کو شادی کی کسی نہ کسی قسم میں قید کر رکھاہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اولاد کس کی ہے اور نجی ملکیت محفوط ہوسکے۔ اسی طرح معاشرے نے انسانوں کے انتقامی جذبات کو بھی سماجی وسیاسی اداروں کی مدد سے ضابطوں میں ڈھال دیاہے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی جان لے لے تو یہ ریاست یا معاشرے کے خلاف جرم تصور کیا جاتاہے اور معاشرہ اس کا انتقام سزا کے نام پر لیتاہے۔ فرد کے ہاتھ سے انتقام کا حق چھین کر معاشرے کو دے دیا گیا ہے۔ قانونی ادارے انتقام لیتے ہیں اور فرد کے جارحیت کے جذبے کو پوری طرح تقویت نہیں ملتی کیونکہ سزا وہ خود نہیں بلکہ معاشرہ دیتاہے۔
آہوگ گل،مزاحمت کیلے ضروری ہے کہ ایک شخص کا واضح نظریہ حیات ہو۔ یہ خاص طورپر اجتماعی نوعیت کی مزاحمت کیلے ضروری ہے۔ ہر انسان کا کوئی نہ کوئی نظریہ حیات تو ہوتاہے لیکن ایک واضح اور شعوری نظریہ حیات اس بات کو یقینی بناتاہے کہ کوئی شخص مزاحمت کرے گا۔ اگر نظریہ حیات واضح اور شعوری نہ ہو تو روزمرہ مزاحمت تو پھر بھی اسی طرح ہوگی جس طرح آپ نے کی، لیکن مزاحمتی تحاریک میں حصہ لینے کا جذبہ کم ہوگا۔ نظریہ حیات بنانے کیلے ضروری ہوتاہے کہ انسان کی زندگی کی طرف ایک فلسفیانہ رویہ ہو۔ ماہرین کہتے ہیں ”فلسفیانہ رویے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان ہر وقت سقراط،ارسطو یا افلاطون پر بحث کرتاہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ زندگی کی جانب ایک تنقیدی رویہ ہو اور انسان زندگی کے ہر مسئلے پر غور وفکر کرے۔ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے بارے میں اپنے کام کے بارے میں، اپنے رشتوں کے بارے میں غور فکر کرے اور سوچے۔ کسی بھی بات کو بنا سوچے سمجھے قبول نہ کرے۔ اسے فلسفیانہ رویہ کہا جاسکتاہے کہ اپنی صورت حال کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرناہے اور اپنے اردگرد کے ماحول اور عوامل کو تنقیدی شعور سے سمجھنا۔ تنقیدی سوچ اور انداز فکر اجتماعی مزاحمت کی اولین شرائط ہیں۔ لیکن آپ نے اورایسا فیصلہ لیا جس پر مختلف چی مہ گویاں شروع ہوگئیں ہیں۔ بلوچی کا بتل ہے کورانی دپ بند بنت بلہ مردمانی نہ بنت۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔