آهوگ گُل سے وابستہ کچھ یادیں
تحریر: سنگت شیر جان
دی بلوچستان پوسٹ
مجهے یاد ہے 2013 کے الیکشن کا سماء تها، میں اپنے پارٹی کے کام سے بلیده آیا تها. میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تها کہ اچانک ایک سنگت آیا اور اُس نے سلام کیا، اور ہم سب کی توجہ اُسکی طرف مبذول ہوا خیر ہم نے سنگت سے حال احوال کیا، اُس وقت شہید بابا درویش بهی ہمارے سات تهے اور اُسے کسی کام سے بالگتر جانا تها۔
بڑے اچهے دن تهے وه، مجهے بلکل اندازه نہ تها کہ میں اُس وقت چند عظیم ساتهیوں کے سات بیٹھا ہوا ہوں، جو آنے والے وقت امر کردار ثابت ہونگے، جن پر قوم کا ہر سمجهدار اور باوقف بیٹا رشک کریگا. جن کے کرادار کو تاریخ اپنی سُرخیوں میں محفوظ کریگی۔
خیر جو دوست اُس وقت ہم سے ملا تها باتوں باتوں میں ہم سے آهوگ گل کا پوچھنے لگا کہ آهوگ گل کون ہے؟ کہاں کا رہنے والا ہے؟ مجهے تو اُس وقت یہ بهی علم نہ تها کہ آهوگ گل نامی ایک انقلابی شاعر اور ہمارے ہی پارٹی کا کوئی سنگت ہے. تو شہید بابا درویش نے اُس سنگت سے کہا کہ آهوگ گل ہمارا ہی سنگت ہے، پهر اُس دوست نے کہا کہ میں آهوگ گل کو نہیں جانتا مگر اُسکی شاعری مجهے بے حد پسند ہے. آهوگ گل کا ایک غزل اُس وقت آصمی بلوچ نے گایا تها جو کہ بلیده کا رہائشی ایک اچهے گلوکار ہیں. اس غزل کو سُن کر وه نیا دوست جو بس ہم سے تهوڑی دیر پہلے ہی مِلا تها آهوگ گل کے شاعری کا دیوانہ بن چکا تها. وه غزل اُس سنگت کے موبائل میں موجود تها بعد میں جب ہم نے وه غزل سُنا تو مجهے بهی آهوگ گل کے بارے میں جاننے کا تجسُس پیدا ہوا. اور میں نے شہید بابا درویش سے پوچها، سنگت آهوگ گل کون ہے مجهے کچه بتاسکتے ہو تو شہید بابا درویش نے آهوگ گل کی تعارف کی. یقین جانیئے صرف اس کے بارے چند الفاظ سُن کے دل آهوگ گل سے ملنے کا خواہشمند بن گیا. اس کے مخلصی، سچائی اور شاعری کے بارے میں سن کر جیسے مجھ پہ بهی سنگت آهوگ کا جادو چلنے لگا تها.
وقت گذرتا گیا اور ایک دن مجهے علم ہوا کہ آهوگ گل اور اُستاد منہاج مختار دونوں ایک سات بالگتر آئے ہوئے ہیں. اور خوش قسمتی سے میں بهی بالگتر ہی میں تها، تو میں اپنے دل ہی دل میں پهولے نہیں سما رہا تها۔ میرے دل جو تمنا آهوگ گل سے ملنے کی تهی وه پوری ہونے جارہی تهی. سونے پہ سہاگا تو یہ کہ اُستاد منہاج اور آهوگ گل ایک ساتھ ہی تهے۔
خیر جب میں اُن سے ملنے گیا تو پہلی ہی ملاقات ہم ایسے خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں لگ گئے جیسے بچپن کے دوست آپس میں بہت سال بعد ملے ہوں۔ باتوں باتوں میں کافی وقت گزر چکا تها. میں نے اُسے بتایا کہ میں آپ سے ملنے اور آپکو جاننے کا بہت زیاده خواہشمند تها.
اس ملاقات میں ایک اچهے دوست کے علاوه میں آهوگ اور بهی بہت کچه تها، بلوچ قومی آزادی کا ایک قومی جہد کار، ایک ادیب، ایک ایماندار، سچا اور مخلص جہد کار جس سے مل کر شاہد کسی بهی انقلابی زہن کے مالک کو آهوگ سے فکری غذا میسر ہوتا. ایک تازه دم سا جذبہ ملتا. اور یہ سب میں نے اُس سے ملنے کے بعد محسوس کیا. آهوگ سے ملنے وقت کے جو مُسرتی احساسات میرے زہن میں گهوم رہے تهے، اُنہیں شاہد میں قلم کی مدد سے بیان نہ کرپاوُں. وه احساسات کافی خوبصورت تهے کافی دلکش اور ہمیشہ رہنے والے تهے. وه ملاقات میری زندگی کے یادگار لمحوں میں سے ایک تها اور پهر ہمیں ایک جلسے پہ جانا پڑا جو (بی این ایم) کی طرف سے پروم میں منعقد ہونے جارہا تها. اس جلسے میں آهوگ نے اسٹیج پہ آپنی ایک نظم سُنائی جو مجه سمیت سب کو بہت پسند آئی.
چار پانچ روز کے بعد ہم واپس بالگتر چلے گئے. اُستاد منہاج اور آهوگ گل بالگتر میں ٹھر گئے اور میں بلیده زعمران کی طرف سفر پہ نکل پڑا.
دو یا تین ہفتے گذرنے کے بعد دوسرا ملاقات آهوگ سے کلبر میں ہوا، جب وه اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ اپنے علاقے کی جانب جارہے تھے. اُس وقت ہم بہت دوست ساتھ میں تھے، شہید ناکو نثار، شہید واجہ عابد زعمرانی اور چند اور ساتهی تهے.
رات کا وقت تها ہم ہنسی مذاق میں مصروف تهے. اور میں کافی خوش تها کیونکہ نظریاتی اور فکری دوستوں سے ملنے کا مزه ہی کچھ اور ہوتا ہے. اُنہوں نے رات کا کهانا ہمارے سات کهایا. رات کافی ہوچکی تهی اور پهر سب دوست رخصتی کرکے چلے گئے.
اس ملاقات میں آهوگ کچھ تبدیلی کی جانب اشاره کررہے تهے. وه تبدیلی کیا تهی، شاہد وه بیان کرنا چاہتے تهے لیکن چند وجوہات کے بناء پر بات نہ ہوسکی. لیکن کسی شاعر یا ادیب کو جاننے کے لئے آپکو زیاده محنت نہیں کرنی پڑتی، بس جستجو ہی کافی ہے. کیونکہ وه اپنے خیالات کا اظہار اپنے شاعری کے زریعے سب پہ واضح کرتا ہیں. اور شاعری بهی موجوده حالات میں ایک روشن کردار کی طرح ہوتا ہے، جو انسان کے اندر احساس جگاتی ہے. اور کسی ادیب کے الفاظ علم کی حیثیت رکهتے ہیں جو کبهی بهی نہیں مرتے.
شعرا اپنے احساسات الفاظ کی صورت میں قلمبند کرتے ہیں. اور یہ احساسات بہم ہم تک پہنچتی رہتی ہیں بس سمجهنے کی ضرورت ہے، کسی شاعر کی زندگی اس کے شعروں سے عیاں ہوتی ہے، بس سمجنے والے لوگ ہونے چاہیئں۔ کسی شاعر پر ایسی نوبت کیوں اور کیسے آپہنچی کے وه اپنی ذات تک مٹا دے، یہ بهی اسکے الفاظ ہی میں شاہد عیاں ہوسکے.
پر افسوس کے آج عام لوگ تو عام انقلابی بهی اس نفسا نفسی والے عمل میں دهنسے نظر آتے ہیں. کسی کو یہ خیال رہتا ہی کہاں کہ اس عزیز وُ رشتہ دار اور دوست کس حال سے گذر رہے ہیں. ہم نے وه شعور و احساس کهو دیا ہے کہ کوئی دوست آکر ہم سے اپنی مشکلات کا ذکر کرے، اپنی تکالیف کے بارے میں بتا سکیں.
یہ ایک انسانی عمل ہے، اور اس عمل کو ہمیں انسان بن کر نبھانا ہوگا. ہمیں ہی اپنے قریبی لوگوں کے دکھ درد سمجهنے ہونگے. کیونکہ ہم ہی انسان ہیں اور ہم ہی ایک دوسرے کے زندگی سے بندهے ہوئے ہیں. یہ کام جانور نہیں کرینگے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو نقصان ہمارا ہی ہے اور ہم ہی اس سے متاثر ہونگے۔
ہمیں اپنے سنگتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُنکی اس سود و زیاں میں ہم بهی شریک ہیں. ہماری منزل ایک ہے، ہم ایک ہی کشتی میں محوِ سفر ہیں اور یہ کشتی اکیلے ہم سے نہیں چلنے والی، ہمیں آگے بڑهنے کے لئے طوفانی موجوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے سنگتوں کو اعتماد میں لینا چاہئے. اُن کی ذاتی تکالیف کا بر وقت احساس کرکے ان کے سدباب کا سوچنا چاہیئے، تبهی ہم کامیاب ہو پائینگے وگرنہ یہ ذاتی، ایک دن اجتماعی کی روپ ڈهال کر ہمارے سامنے کهڑا ہو جائیگا اور ہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کے اگر کوئی انسان یہ سمجھتا ہے کہ خودکشی ایک اچھا عمل ہے تو وہ اپنی بات سے مکر سکتاہے کیونکہ خدا نے اپنے کلام میں یہ بات واضح کردی کہ اے انسان مایوس مت ہو اور اپنی جان خود مت لو اس سے تمارا رب ناخوش ہوگا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ آج تک کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا، جو خدا سے بھی بڑا علم رکھتا ہے، اگر کسی کے ذہنیت میں خودکشی ایک اچھا کام ہے تو وہ واضح کردے کہ اس کے کیا معنی ہیں اور کیا فائدے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔