آج نہیں تو کب؟
تحریر: پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں مظلوم بلوچوں کو قابض ریاست پاکستان کی جانب سے مختلف طریقے سے ہراساں کرنا، ذہنی دباؤڈالنا روز اول سے جاری ہے چاہے روڈوں پر بلوچ مسافروں کو بے وجہ یرغمال بناکراغوا کرنا ہو یا بزرگوں کو تکلیف دے کر انکی جامع تلاشی لینا۔ بستیوں کی لوٹ مارو گھروں کے قیمتی اشیاء لوٹ کر آگ لگاناہو، راہ گیروں کو روک کر ایف سی کاجبراً اپنے لئے راشن سازو سامان خریدکر پہنچاناہو، کسی بلوچ کے محنت مزدورری اور پسینے کی کمائی سے خریدا گیا گاڑی کرنلوں جرنیلوں کو اچھی لگے تو اسے اغوا کرکے تاوان میں قیمتی گاڑی ضبط کرنا تو معمول بن گیا ہے۔
پنجابی کی یہ ضد اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ اس بلوچ نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کی ہے، فلاں بوڑھے بلوچ کا بیٹا آزادی پسند تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، تلاشی لیا۔ فلاں گھر والوں نے سرمچاروں کو پناہ دی گھر جلادیا، تو پھر سامان کیوں لوٹ لیا؟ جواب مال غنیمت ملا۔ چلو اسلامی جمہوریہ کی اس بات پر بھی کوئی مجبوراً اعتبار کرسکے گا لیکن تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو جماعت اسلامی کی صورت میں غنڈوں سے مار پٹائی کروانا یا دوسرے مذہبی شدت پسندوں سے تنقید کا نشانہ بناکر فرقہ واریت کو ہوا دینا اس بات سے ممکن ہے بلوچ طلباء لاہور میں پنجابیوں سے قومیت کے نام پر لڑے جھگڑے ہوں، مگر بلوچستان یونیورسٹی میں طلبا و طالبات سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
براہوئ زبان میں ایک کہاوت ہے “کھران زیادہ کچکاک” اب اتنے زیادہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرکے بلوچستان یونیورسٹی کے نام پر فوجی چھاونی قائم کرنا، طلباء و طالبات کے نقل و حرکت پر نظر رکھنا، ان پر بے وجہ ذہنی پریشر ڈالنا طلباء نہ کئی گھوم سکتے ہوں، نہ کسی چمن میں سکون سے پڑھائی کرسکتے ہوں، نہ امتحانات میں کامیابی حاصل کر سکتے ہوں، مان لیتے ہیں امن قائم کر رہے ہو، مگر بلوچستان یونیورسٹی کے ملازموں کے ذریعے ان کو نام نہاد عہدوں پر فائز کرکے طلباء و طالبات کو حراساں کرنا انکو ازیت دینا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، پھر انکو ریاست مدینہ کے سالاروں کے حوالہ کرنا پھر بلیک میل کرنا لعنت ہو ایسی ریاست پر۔
یہ کرتوت، اظہار نفرت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہیں؟ جو اس حد تک گرنے کے باوجود اپنا نام کلمے سے منسوب کرے پہلے کلمے کے ورد میں چھٹےکلمے کی دھجیاں اڑادے، ایسی ریاست کا ٹوٹ جانا مقدر ہوتا ہے، جو مظلوم عوام پر ظلم کی حدیں پار کر چکے ہوں، مگر ایسے ریاست کو توڑنے، بکھیرنے والوں کے جگر بڑے ہونے چاہیئے جو آج بلوچستان کے عوام میں بہت کم پایا جاتا ہے، مگر ایسا ہی ایک مقبوضہ علاقہ کردستان ہے جہاں کےمرد اپنی جگہ وہاں کے خواتین مزاحمت کلیے ہمہ وقت تیار کھڑے ہیں۔
جنہوں نے کئی ظالم قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ جاری رکھا ہے، تین قابض ریاستوں ترکی شام اور عراق کی توپیں خاموش کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں، داعش جیسی عالمی دہشت گرد کو شکست سے دوچار کیا ہے، آج ان کے پاس ان کی سب سے بڑی قوت انکا حوصلہ ہے، اگرچہ کسی ملک کی ان سے ہمدردی نہیں ہے مگر ان کا ایمان مزاحمت کرنے کیلئے چٹانوں سے بھی مضبوط ہے۔
یہاں دہشت گردی کو فروغ دینے والے ریاست کے گنے ہوئے چار دن ہیں، مگر ہر شخص کو اپنی عزت، ننگ و ناموس، اپنا گھر بار بچانے کیلئے آگے نکلنا ہوگا، آج یہ ناپاک ریاست اسلام کے نام پر ایک بہت بڑے گھمنڈ میں ہیں مگر خدا تو نہیں ہے اس ریاست کو چلانے والے بھی سنگ دل انسان ہیں۔
ایسے سنگ دلوں کے ساتھ پھتر کا دل رکھ کر جنگ لڑی جائے، تب ہمارے آنیوالی نسلیں سکون سے آزادی کی سانس لے سکینگے ورنہ وہ بھی اس ظلم کی چکی میں پسینگے اور اس ظلم کے نام و نشان مٹانے کیلئے کل نہیں آج ابھی اور اسی وقت بیدار ہونا ہے تاکہ پھر اور زیادہ خون نہ بہے، لاشیں نہ گریں، عزتیں تار نہ ہوں اورپھر پچھتاوا نہ ہو۔ جیسے کہ بابا خیر بخش مری کا قول ہے جو قومیں جتنی دیر سے جاگیں گی، اتنی ہی زیادہ قربانیاں دینی پڑینگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔