نیا عالمی فرمان،دہشت گرد ریاستوں کی وجود کیوں؟ -سمیر جیئند بلوچ

373

نیا عالمی فرمان،دہشت گرد ریاستوں کی وجود کیوں؟

تحریر سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

دہشت گرد ریاستوں کے کھل کر سامنے آنے سے قبل مختصراََ نیا عالمی فرمان(نیو ورلڈ آرڈر) کی کھوج میں چلتے ہیں کہ یہ کس دکھ، سکھ یا آبادی ا بربادی کانام تھا۔
نئے عالمی فرمان کی ابھی تک کوئی واضح معنی دریافت نہیں کی گئی ہے۔نئے عالمی فرمان ابھی تک دنیا کے سیاستدانوں اور دانشوروں کے زیر مباحثہ ہے،یعنی اسے بھی بحث کی ضرورت ہے، بعض عالم فاضل کا تجزیہ ہے کہ نیا عالمی فرمان کا مطلب دنیا میں امریکہ کی اجارہ داری ہے، امریکہ آج کل سب سے بڑی قوت ہے،اور اس کا حکم چلے گا،بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ نیا عالمی فرمان کا مطلب دنیا میں جنگ کے خطرات کو ختم کرنا جارحیت کو شکست دینا اور دنیا میں مکمل امن لانا ہے۔اسلئے نیا عالمی فرمان کے بارے مختلف مبصرین اپنی مثبت اور معنی خیز تجزیہ دیتے ہیں،لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نیا عالمی فرمان سرد جنگ کے خاتمہ کا اعلان ہے، سوویت یونین کا زوال اور دیوار برلن کا خاتمہ دنیا کی ایک بڑی تبدیلی ہے۔

سوویت یونین جوکہ ۷۱۹۱ء سے لیکر ۰۹۹۱ء تک ایک سپر پاور کی حیثیت سے ابھراتھا،اور دوسری جنگ عظیم سے نوے تک امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں نمایاں تھا،کچھ ایسی پالیسیاں اور پروگرامز اختیار کئے، جوکہ اس کے زوال کا سبب بنے اور جس سے ایک بڑاہی طاقت پاش پاش ہوگیا،یعنی دو قطبی دنیا سے،یک قطبی نظام عمل میں آیا۔جس میں صرف امریکہ کا بڑا رول اور اثر ہے، اور جس میں امریکہ کی اجارہ داری ہے اور اس کا حکم چلتاہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دوسپر پاور کی حیثیت سے نمودار ہوکر سامنے آئے،جاپان کو ایٹم بم سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا،اور امریکہ کاطفیلی ملک بن گیا،بری طرح سے ددولخت ہوگیا،یعنی دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔اور روس اور امریکہ کے شکنجوں میں جکڑا رہا۔

دوقطبی نظام میں ایک نیا اقتصادی نظام وجود میں آیا۔ امریکہ جوکہ سرمایہ نظام پر یقین رکھتا،اور سوویت یونین جس کا نظام اشتراک پر مبنی تھا، رونما ہوئے اور ان دوبڑی طاقتوں نے بیرونی اعداد کے ذریعے اپنا اپنا دائرہ بڑھانے لگے۔روس کی پالیسی دنیا میں کمیونزم پھیلانا تھا،اور امریکہ کی پالیسی اور پروگرام کمیونزم کو روکنا،اور سرمایہ داری نطام کو تقویت دینا تھا۔جس نے سرد جنگ کی شکل اختیار کئے،اور تقریباََ ۵۴ سال ۵۴۹۱ء تک ان دوبڑی طاقتوں کے درمیان جاری رہی،امریکہ مغربی یورپ اور روس مشرقی یورپ کی قیادت کرنے لگے،سرد جنگ کی اس پینتالیس سالہ طویل کشمکش میں بالآخر امریکہ اپنی بے پناہ مالی وسائل کے بل بوتے پر روس کو پیچھے دکھیلنے میں کامیاب ہوگئی،یونہی ایک قطبی نظام وجود میں آئی،جس میں صرف ایک طاقت کا کردار اور اثر کو تقویت پہنچا یعنی امریکہ روسی کامریڈ میخائیل گورباچوف نے اپنے دور اقتدار میں ۵۸۹۱ء سے لیکر ۱۹۹۱ء تک پرانے اشتراکیت نظام کے تحت چلنی والی معاشی وسیاسی اور سماجی نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی سوویت معاشرے کی اصلاح کیلئے پریسٹریکااور گلاسناسٹ ہی کھلی تنقید کا پروگرام پیش کیا ۔اس پروگرام کے تخت سیاسی سطح پر جمہوریت لائی گئی۔معیشت میں بہت تبدیلیاں کی گئیں اور نج کاری کی راہ ہموار کی گئی، خارجہ پالیسی کی میدان میں یورپ سے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والی میزائلوں کا زیروایشن یعنی مکمل خاتمے کا نظریہ پیش کیا۔ مشرقی یورپ اور افغانستان
وغیرہ سے سوویت یونین نے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا،اور چین سے تعلقات فروغ دینے کیلئے گفتگو کا آغاز کیا۔

گورباچوف کی پالیسیوں نے سوویت یونین کو سیاسی اور اقتصادی محاذ پر ایک مسودہ قانون کی منظوری دی، جس سے سوویت ریاستوں کا وفاق سے علیحدگی کا حق مل گیا۔۷ دسمبر ۱۹۹۱ء میں تینوں بالٹک ریاستوں یعنی لتھونیا،استونا،اور لیتھویا نے سوویت یونین سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔اور ۴۲ دسمبر۶۹۹۱ء کو گیارہ جمہوری ریاست کا خود مختیاری پر دستخط کئے گئے،اور یونہی سوویت یونین کا کردار دنیا سے ختم ہوگیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا،یوں سرد جنگ کا باقاعدہ خاتمہ ہوگیا یعنی دوقطبی نظام سے ایک قطبی نظام ظہور پذیر ہوا،اس نظام کے کرتا دھرتا امریکہ بن بیٹھے۔ گویا اس کے تنہا طاقتور بننے بعد ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی اور وحشت بربریت کا بیج اصل میں امریکہ ہی نے اس دن بویا تھا جس دن سوویت یونین میں سوشلسٹ حکومت کا اقتدار طلوع ہوا تھا۔اس کے بعد امریکہ نے سرد جنگ زریعے اس کی آبیاری کرکے اسے اس وقت پھل دینے کے قابل بنادیا، جب سوویت یونین،مہذ دنیا کے نقشہ پرروس ہی رہ گیا۔(بقول سرمایہ داروں کے سوویت یونین جوکہ ان کے نظروں میں شیطان تھا سے شریف بنا یعنی یہ شرافت اس کے مختلف ٹکڑوں میں بکھرنے کی صورت میں نکھر کر آئی،) گویا اس کا روس بننے بعد امریکہ بے لگام یا مست ہاتھی کا شکل اختیار کرکے دنیا میں دہشت گردی (جوکہ سردجنگ کے زمانے میں پردہ کے پیچھے تھی) کو سامنے لاکر اس کے چہرہ سے پردہ ہٹادیا، جب پردہ (یعنی شرم حیاء انسانیت تہذیب،مہذب سب بے معنی ہوگئے)ہٹا تو انھوں نے اپنے یک قطبی طاقت کو وسط ایشاء کی قدرتی وسائل کے لوٹ مار کی خاطر استعمال کرنے کیلئے ایم آئی سکس سے زیر زمین مل کر (حقیقت میں چمچہ بن کر)مذہبی دہشت گردی کو سرعام معاونت کرنے کا بیڑھ اٹھایا۔جس کے لئے خام میٹیریل کی شکل میں قطر،سعودی عرب اور پاکستان جیسے غیر ذمہ دار ملک موجود تھے،جس کی وجہ سے انھیں سستے مزدور مدرسہ کے طلبا کی شکل میں موسمی ٹڈیوں کی شکل میں ہاتھ آگئے۔جن سے وہ اپنے ہاتھ بھرپور طریقے سے صاف کئے،افغانستان،عراق لیبیا وغیرہ جیسے جنت نظیر ملکوں کو جہنم بنادیا۔اورمذید سعودی اور قطر کو خلیجی ممالک اور ناکام ریاست پاکستان کو انڈیا،افغانستان اور ایران کا ٹاسک دیا گیا کہ جس طرح چاہے وہ ان ممالک کو نیست نابود کرنے کیلئے اپنے دہشت گردانہ گر مستقلاََ استعمال کریں،جب اس کار ہائے شیطانی کیلے ڈالروں کی ضرورت پڑی تو وہ موٹے گردن کے مالک سعودی عرب اور قطر سے اپنے توقعہ سے زیادہ بھیک حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔ہمارے بلوچ قوم کے دوسری بڑی قومی زبان براہوئی کا ضرب المثل ہے ”خزم ایہن گنوک ءِ چڑینگ ءِ تفیس تہ بتر گنوک مریک“مطلب حرن بھاگنے یا تیزی میں ویسے مشہور اور پاگل ہے اگر آپ اس کے گردن میں گھنٹی باندھیں گے تو اور پاگل ہوگا۔ دہشت گرد عالمی ناکام ریاست پاکستان نے اس تھپکی اور بات سے خوب فائدہ اٹھاکر ہمسایہ ممالک میں مذہبی دہشت گردی ذریعے ان کا جینا حرام کرنا شروع کردیا۔اور اس غیر رسمی آف دی ریکارڈ اجازت نامہ کو اپنی پدری حق سمجھ کر اپنے ہی مقبوضہ علاقہ بلوچستان کے آزادی پسند بلوچوں کے نہ صرف خلاف بلکہ مظلوم اقوام پشتون اور سندھی سمیت دوسرے اقلیتوں کے خلاف بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔اس خونی گنگا میں نہاتے انھیں دو تین عشرے بیت گئے مگر امریکہ سمیت دنیاکے تہذیب کے ٹھیکدار ٹس سے مس نہ ہوئے۔تاہم اس ظلم کے خلاف عالمی دنیا کا ضمیر اس وقت جاگا، جب ہندوستان،افغانستان اور ایران نے اس کے مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے سے تنگ آکر عالمی دنیا کو واضح پیغام دینا شروع کردیا کہ جس مقصد سے سپر پاور امریکہ اس کی مدد کررہے ہیں،یہ ملک اسی کو الو بنا کر وہ ڈالر دوسرے ہمسایہ ممالک علاوہ اپنے ہی مظلوم رکھے گئے اقوام کے خلاف استعمال کرکے اپنے ناکام ریاست کو مذید دنیا کے نقشہ پر درندگی اور وحشت کرنے کیلئے دوام دے رہی ہے۔

ان حقائق کو پرکھنے بعد دنیا کے سپر پاور ملکوں خصوصاََ امریکہ اور اسکے شاہسواروں کی فرض منصبی بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاََ انڈیا کو وہ اختیار اور مدد دیں کہ وہ سردجنگ کویاد گار بنانے کیلئے پاکستان کا نہ صرف شیرازہ بکھیردیں بلکہ اسے عملاََ عظیم انسانوں کی بستی سے جانور سمجھ کر مٹادیں،(کیونکہ جنگلی وحشی جانور اور انسان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے) جس طرح عالمی نقشہ سے اس کا وجود مٹادیا گیاہے،تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،عظیم دھرتی پرانسانی اقدار، تہذیب پھر اپنے حقیقی روح میں پنپنا شروع کردیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔